گلگت بلتستان: ٹیکس ایمنسٹی اور گندم سبسڈی کا خاتمہ


صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا جس میں سیاسی رہنماﺅں نے ان سے ملاقات کرکے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرانے کا مطالبہ کیا ۔ صدر مملکت نے سیاسی اور سماجی شخصیات کے اس مطالبے پر کہا کہ میں نے سرتاج عزیز کی سفارشات نہیں پڑھے ہیں، ان پر غور و خوض کرنے اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی اس پر کوئی موقف اپنا سکتا ہوں۔ گلگت بلتستان اسمبلی نے اکثریتی رائے کی بنیاد پر قرارداد منظور کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سابقہ وفاقی حکومت کے دور میں گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کے تعین اور اصلاحات کے لئے قائم ‘سرتاج عزیز کمیٹی ‘ کے سفارشات پر من و عن عملدرآمد کرایا جائے ، یہ قرارداد حکومت اور اپوزیشن کے اراکین نے الگ الگ لائی تھی جسے یکجا کرکے ایک کردیا گیا۔ گلگت بلتستان کے سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ سرتاج عزیز نے عرق ریزی کے بعد جامع سفارشات مرتب کرکے گلگت بلتستان پر احسان کیا ہے ۔ جس روز خلاف روایت اپوزیشن اور حکومتی بنچز یک زباں ہوکر اسمبلی میں قرارداد پر بات کررہے تھے اس روز وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن بھی اسمبلی میں موجود تھے، انہوں نے دبے الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ اس قرارداد کو پاس کرنے میں جلدبازی نہ کیا جائے۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے تین سفارشات مرتب کی ہیں، وہ ساری کے ساری ابھی تک عوامی رسائی میں نہیں ہیں، زیادہ تر وہی سفارشات گھوم رہے ہیں جن سے گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو مرتب کیا گیا ہے ۔ دوسری سفارشات ابھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلب کیا ہے اس وجہ سے وہاں پیش ہوں گی جبکہ تیسری سفارشات کا ابھی تک کسی کو علم نہیں ہے ۔ لہٰذا قرارداد کو منظورکرنے سے قبل ‘ان کیمرہ ‘بریفنگ کا اہتمام کیا جائے، چونکہ میں تینوں سفارشات میں دستخط کرچکا ہوں اور حلفیہ طور پر انہیں خفیہ رکھا گیا ہے اس لئے قرارداد کو منظور کرنے سے قبل بریفنگ کا اہتمام کیا جائے۔ میڈیا کی موجودگی میں بعض چیزوں پر گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے ۔ ممبران سنجیدگی سے غور کریں۔ ہم قومی مفاد میں سیاست چمکانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں گے ۔

گلگت بلتستان میں وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے نام پر ایک 30×90 کا بڑا ہال اور ایک 18×30 کا کمرہ تعمیر کیا گیا۔ وزیراعلیٰ کا موقف تھا کہ مہدی شاہ ‘سیدھے سادھے ‘آدمی تھے اس لئے بے ترتیب قسم کے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں بیٹھے رہے۔ سابقہ سیکریٹریٹ میں اگر کوئی اہم میٹنگ ہوتی تو وفود کو یا سیدھے اندر لیکر آنا پڑتا یا پھر انہیں باہر بھجوانا ہوتا تھااس لئے اس ہال کی اشد ضرورت تھی اس لئے اپنے ہاﺅس کو ہی سیکریٹریٹ کے طور پر استعمال میں لایا۔ نئی تعمیرات کا فائدہ یہ ہوگا کہ بڑی سے بڑی اور اہم کانفرنس بھی اب یہی پر ہوگی، وزیراعلیٰ کے سٹاف کے لئے جگہ موجود ہوگی ، انتظار گاہ قائم کیا جاچکا ہے، اور آئندہ سے اس ہال میں بیٹھ کر عوامی مسائل کو حل کروںگا۔ نئے تعمیرات کے افتتاحی تقریب میں وزیراعلیٰ نئی عمارتوں اور محکمہ تعمیرات کے فضائل اور اوصاف بیان کررہے تھے۔ مجھے وزیرتعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال کی چند روز قبل ہی اسمبلی کی گئی وہ تقریر یاد آگئی جب انہوں نے اسمبلی میں سپریم اپیلیٹ کورٹ میں غیر قانونی تقرریوں کی قرارداد پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں وزیرتعمیرات ہوں، سپریم اپیلٹ کورٹ میں کی گئی جدید اور اعلیٰ تعمیرات کو دیکھ کر مجھے تاج محل اور برطانوی شہزادوں کی رہائشگاہ کا گمان ہوتا ہے، اپنے محکمہ سے کئی بار وضاحت طلب کی کہ ان تعمیرات کی منظوری کس نے دی ہے؟ ان تعمیرات کی سکیم (منصوبہ) کس کی تھی؟ ان پر کیا گیا خرچہ کہاں سے لایا گیا ہے اور اس کروڑوں کو خرچ کرنے کی اجازت کس نے دی ہے ؟ مجھے اب تک جواب نہیں مل رہا ہے۔

اسمبلی کے افتتاحی تقریب کے بعد وزیراعلیٰ نے صحافیوں سے مختصربریفنگ رکھی۔جہاں گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں بجلی، پانی، تعمیرات اور سڑکوں کی صورتحال سے آگاہ کیا اور نئے معاشی بحران پر گفتگو کی ،وہی پر راقم نے سرتاج عزیز کے تین خفیہ سفارشات پر سوال کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اسی طرح خفیہ سفارشات رہیں گی تو کل سی پیک والی صورتحال اختیار کرجائیں گی جیسے موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کے تمام فیصلوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعلیٰ نے مختصراً کہا کہ سرتاج عزیز کی جو سب سے اہم سفارشات ہیں ان میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 میں ترمیم کرتے ہوئے آبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے کی سفارش کی گئی ہے ۔جس کی رو سے گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زیادہ سے زیادہ تین تین نشستیں مل سکیں گی تاہم اس کے عوض خدشہ یہی ہے کہ گلگت بلتستان کو ملنے والی پانچ سالہ ٹیکس ایمنسٹی ختم ہوجائے گی اور گندم سبسڈی بھی ختم کردی جائے گی ۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے 32ویں اجلاس میں وزیراعلیٰ نے آئینی حیثیت اور آئینی حقوق کے معاملے پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز کے سفارشات پر ان کیمرہ بریفنگ کے اہتمام کا مطالبہ کیا لیکن جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اکثریت رائے سے منظور کردیا گیا ۔ اپوزیشن رکن نواز خان ناجی نے سادہ الفاظ میں قرارداد کی حمایت سے انکار کردیا جبکہ جے یو آئی کے رکن حاجی شاہ بیگ ،جو نہ حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا حصہ ہے ، نے چھتر پلین تک کے علاقے کو جی بی کے ساتھ ملاکر صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سرتاج عزیز کمیٹی کے سفارشات پر عملدرآمد کرنے کی قرارداد کی مخالفت کی۔ اجلاس کے اگلے روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان بار کونسل نے اس قرارداد کو دوران سماعت جمع کرایا اور اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا ۔

آئینی حقوق کا معاملہ جملہ سیاستدانوں اور جملہ عوام سے بھی سنجیدگی کا مطالبہ کرتا ہے ، مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان آرڈر 2018کے نفاذ میں بھی اسی قسم کی عجلت کامظاہرہ کیا تھا ،تحریروں میں اس عجلت کے حوالے سے خدشات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اور اس پر سامنے آنے والا ردعمل بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ سرتاج عزیز کی سفارشات کے حوالے سے بھی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرارداد پاس کردی گئی حالانکہ ساتھ میں وزیراعلیٰ ان تمام حکومتی اور اپوزیشن ممبران کی توجہ دلانا چاہتا ہے کہ اس کے تینوں سفارشات میں دستخط کرچکا ہوں لہٰذا قرارداد کو منظور کرنے سے پہلے دیکھ تو لیں کہ ان میں ہے کیا؟ گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا معاملہ عرصہ دراز سے زیر بحث رہا ہے اس دراز عرصے کے بحث مباحثے نے مایوسی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے ، اب سرتاج عزیز کمیٹی امید کی آخری کرن تھی ، پھر سپریم کورٹ میں مسلسل سماعتیں شروع ہوئیںتو امید کا دیا پھر روشن ہوگیا تھا لیکن اس کا ابتدائی معاوضہ ٹیکس ایمنسٹی اور گندم سبسڈی کے خاتمے کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ احمد کمال پروازی نے اس صورتحال کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے

ایک ہی تیر ہے ترکش میں تو عجلت نہ کرو
ایسے موقعے پر نشانا بھی غلط لگتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).