اسلامی نظریاتی کونسل کی (غیر جبری) گمشدگی


اسلامی نظریاتی کونسل کی پاکستان میں وہی وقعت رہ گئی ہے جو اس وقت تنظیم تعاون اسلامی ((OIC کی مسلم دنیا میں ہے۔ یعنی ہونا نہ ہونا برابر ہے!

چونکہ مملکت خداداد کو روز اول سے ہی مسلمان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس ضمن میں تجربات جاری وساری ہیں۔ دیگر کاوشوں میں ایسے آئینی اداروں کا قیام بھی شامل ہے جو حکومت اور ریاست کو درپیش مسائل پہ دینی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکے۔ انھیں میں سے ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی ہے جس کا قیام آئین کی شق 230 کے تحت 1962 میں عمل میں لایا گیا۔ کونسل کا مینڈیٹ ایسی سفارشات کی تیاری تھی جو منتخب ایوان کے قوانین کو قرآن و سنت کے تابع کرسکے۔ کونسل میں ایسے علماء کی تقرری متقاضی تھی جو اسلامی اصول و فقہ بشمول معاشی، سیاسی، اور قانونی پہلوؤں پر نہ صرف مہارت رکھتے ہوں بلکہ ان اصول وضوابط کی عصر حاضر کے مسائل پہ کماحقہ اطلاق بارے راۓ بھی دے سکتے ہوں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ بعد کے اداور میں سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے تحت فضل الرحمن و ہمنوا نے اپنی جماعت کے واجبی تعلیم رکھنے والے مولانا شیرانی کو چیئرمین کا تقرر کروایا۔ جن کی تقرری اور قابلیت بارے سوالیہ نشان کھڑا رہا۔

پاکستانی مقننہ و انتظامیہ کو درپیش خصوصاً دینی مسائل پر اگر نظر دوڑائیں تو کیا تیقن کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہا ہے جس کے لیے یہ معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ دور مت جائیے۔ صرف دوسالوں میں بیتنے والے دو واقعات کو سامنے رکھیے اور کارکردگی کو جانچیۓ۔

2017ء میں نواز دور میں پارلیمانی بل برائے انتخابی اصلاحات پیش ہوا جس میں کیمیٹی کے ممبران نے بل کے مسوّدہ میں ختم نبوت سے متعلق پیرا “میں حلف اٹھاتا ہوں” کو ” میرا اعتقاد ہے” سے بدل دیا۔ الفاظ کا چناؤ بظاہر اس بات کا عندیہ دے رہا تھا کہ حکومت دانستہ غیرمسلم قادیانیوں کو محفوظ رستہ دے رہا ہے۔ اگرچہ حلف نامہ کی تبدیلیِ عبارت سے آئین کی شق 7 بی جو قادیانیت کو واضح طور غیرمسلم قرار دیتی ہے پہ فرق نہ پڑا مگر اس نازک مرحلہ پرحکومت جس غلطی کی مرتکب ہوئی وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی راۓ نہ لینا تھی۔ جہاں حکومت نے بے اعتنائی برتی وہیں کونسل بھی اپنے فرائض سے کلی طور غافل رہی۔ غلطی افشا ہوئی تو عوام کی طرف سے احتجاجی آواز کا اٹھنا ایک قدرتی امر تھا۔ کونسل کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے کو عوامی طبقات تک پہنچنے سے پہلے حکومت کو اپنی غلطی کی نشاندہی کرواتی اور آئین و قانون کی روشنی میں اصلاح کا موقع دیتی۔ جانبین کی طرف سے مگر تساہل برتا گیا اور مذہبی طبقہ کو اس پر سیاست کا موقع کیا ملا کہ پنڈی اسلام آباد کا سنگم کئی ہفتوں کے لیے عوام کے لیے وبال جان بن گیا جبکہ ایک اور تشدد پسند مذہبی جماعت کے اضافہ سے سیاسی تلخی بھی بڑھ گئی۔

کونسل کی دوسری ناکامی چند روز قبل پی ٹی آئی کی حکومت میں سامنے آئی۔ آسیہ کیس پہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو مذہبی جماعتوں نے ایک بار پھر احتجاجی راہ پکڑ لی۔ اب کی بار شدت پسند مذہبی جماعت کا نشانہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز، فوج اور حکومت کے سربراہان تھے۔ قتل وغارت اور بغاوت کو دعوت دی گئی۔ اگرچہ وزیراعظم نے سخت لہجہ اپنا کر ایسے عناصر کی مذمت کی مگر ایک بار پھر کونسل جیسے اہم (اگر ہے) ادارے کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کونسل معاملہ پہ اپنی رائے رکھتی، کونسل سے باہر ہر حلقہ ومسلک کے علماء کا اجلاس بلاتی اور دینی تاریخی حوالے سے حکومت و ایوان کی راہنمائی کرتی مگر افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اور کئی روز کے دنگہ فساد کے بعد اسی واحد مذہبی جماعت کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا جس نے عوام میں شرپسندی کی چنگاری لگائی۔ یہ دوسری حکومت تھی جو اسی جماعت کے دباؤ میں آئی جبکہ مذکورہ سیاسی جماعت نے اپنی سیاسی دکان بھی بڑھا لی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا آئینی ادارہ حکومت و ایوان کی راہنمائی کرنے سے قاصر ہو۔ سماج میں مذہبی توازن لانے میں مددگار بھی نہ ہو۔ مزید برآں سیاسی تقرریوں کے لیے استعمال بھی ہو تو اس کے نشستند وگفتند و برخاستند پہ اٹھنے والے اخراجات قوم کیوں برداشت کرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).