کمیونیکیشن کیا ہے؟


کمیونیکیشن کو دو لائنوں میں بیان تو کیا جاسکتا ہے۔ مگر سمجھانے کے لیے درجنوں لائنیں درکار ہیں۔ دور جدید میں ”کمیونیکیشن“ کا مطلب کہ اپنی بات کو شروع کرنے کا طریقہ کار
اور کمیونیکیشن کرنے کا مقصد کہ اپنی بات کرنے کے بعد اپنا مقصد یا مفاد حاصل کرنا۔

کمیونیکیشن کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب آپ کو اپنا کسی بھی قسم کا مقصد یا مفاد حاصل کرنا ہو کیونکہ جہاں آپ کا مقصد یا مفاد نہیں ہوتا وہاں انفارمل زبان (informal language) کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کمیونیکیشن کی تعلیم حاصل کر لینے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ اب آپ ہر قسم کے شخص کے ساتھ اس کے مزاج کے برابر بات کرنا سیکھ چکے ہیں اور اب آپ اپنے سامنے والے کو ہر حال میں مطمئن بھی کر سکتے ہیں اور اپنی تمام باتیں بھی منوا سکتے ہیں۔

بے شک کمیونیکیشن کا شعبہ تمام چھوٹے بڑے اداروں میں مختلف اہم شعبہ جات کی طرح ایک اہم شعبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف اداروں میں شامل بینک، ٹیلی کمیونیکیشن، ہسپتال، میڈیا، ہوٹل، ریسٹورینٹ، نجی تعلیمی ادارے اور مختلف چھوٹے بڑے ادارے۔

مثال کے طور پر اگر آپ کا اکاونٹ ایک نجی بینک میں ہے اور آپ کے اکاونٹ میں موجود کل رقم 8 ہزار روپے ہے۔ آپ اپنے بینک میں جاکر وہاں موجود خاتون کے پاس جا کر منہ اٹھا کر کھڑے ہوجائیں گے تو وہ آپ کو دیکھتے ہی نہایت خوشی سے کہے گی کہ
اسلام و علیکم سر، کیسے ہیں آپ، بتائے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟

عدنان احمد: یہ میرا اکاونٹ نمبر ہے۔ مجھے بیلینس بتادیں۔
آپریٹر نہایت ہی خوش اخلاقی کے ساتھ مسکراتے ہوئے۔ سر آپ کے اکاونٹ میں 8 ہزار روپے موجود ہیں۔

عدنان احمد : اچھا۔
آپریٹر نہایت ہی خوش اخلاقی کے ساتھ: سر، کیا آپ مزید کچھ جان نا چاہیں گے۔
عدنان: نہیں، شکریہ۔
آپریٹر ایک بار پھر خوش اخلاقی کے ساتھ، ویلکم سر، اپنا بہت سارا خیال رکھئے گا، خدا حافظ۔
یہ ایک غریب انسان اور نجی بینک کی خوش اخلاق خوبصورت لڑکی کے درمیان کنورزیشن تھی۔ جس کو کمیونیکیشن اور کسٹمر سروس بھی کہا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ اگر آپ کسی بھی نجی تعلیمی ادارے میں اپنے بہتر مستقبل کے لیے داخلہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور وہ ادارہ آپ کا وہ مقصد پورا کرنے کے لیے آپ سے رقم وصول کرتا ہے۔ تو وہ نجی ادارہ آپ سے منہ مانگی رقم لینے کے دورانیہ میں آپ سے نہایت ہی خوش اخلاقی کے ساتھ میٹھے انداز میں بات کرے گا۔ مگر رقم وصول ہو جانے کے بعد وہ مسکراہٹ آپ کے لیے نہیں رہے گی۔ کیونکہ وہ مسکراہٹ نئے مجبوروں کے لیے بھی بچا کر رکھنی ہوتی ہے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے عدنان احمد اپنے بینک میں مسلسل چار دن سے اس ہی خاتون سے بینک بیلنس معلوم کرتے جارہے ہیں۔ اور بینک اکاونٹ میں کل رقم وہی 8 ہزار روپے ہے۔ تو کیا وہ خاتوں ایک ہی طرح عدنان احمد کو عزت بخشے گی؟

کمیونیکیشن کی تعلیم کا مقصد صرف ایک حد تک ضروری ہے کہ کسی نئے شخص کے ساتھ پہلی بار خوش اخلاقی کے ساتھ بات کرنے کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کو یاد کرنا۔ کیونکہ اس کے بعد اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اپنے تجربہ کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کمیونیکیشن کی تعلیم کا کوئی مقصد نہیں۔

زمینی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ کمیونیکیشن کا تجربہ ایک ماسٹر درجے کے تعلیم یافتہ پروفیسر سے زیادہ تبلیغی جماعت کے غریب ان پڑھ شخص کے پاس ہے۔ جو درجنوں افراد کو اپنے ساتھ تبلیغی جماعت کے جلسے پر جانے کے لیے امادہ کر لیتا ہے جبکہ یہ ادارہ نان پرافٹ ہے۔ بغیر کسی لالچ کے۔
نوٹ : اس بات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت میں شرکت کرنے والے افراد پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔

زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مارکیٹنیگ، سیلز، کمیونیکیشن وغیرہ کے اکثر استاد ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے شاگردوں کو پڑھا پڑھا کر خود تو پروفیسر بن جاتے ہیں مگر ان سے پڑھنے والے شاگرد صرف ماموں ہی بن پاتے ہیں۔

زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ اگر آپ کو پتا ہے کہ آپ جس چیز کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ چیز اس معیار کی نہیں جس معیار کی شکل آپ اگلے کو بنا کر اپنی کمیونیکیشن اور اشتہارات کے ذریعے پیش کر رہے ہو تو یقین کریں کہ آپ کبھی کامیابی کے ساتھ اپنی کمیونیکیشن میں وہ لچک پیدا نہیں کر سکتے جو دیکھ کر ایک عقلمند انسان آپ کی بات پر آمادہ ہوجائے۔ البتہ بیوقوف انسان آمادہ ہوسکتا ہے۔

مگر جیسے ایک نا ایک دن سب کو موت آنی ہے۔ ویسے ہی ایک نا ایک دن بیوقوفوں کو بھی عقل آنی ہے۔ بیوقوف بنا کر وقتی طور پر تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، مگر وہ ادارہ کامیابی کے ساتھ طویل وقت تک مسلسل منافع حاصل نہیں کر سکتا۔

مثال کے طور پر ایک بھوکا کسٹمر جو کسی غیر علاقے کے ایک ریسٹورینٹ کا اچھا سا پوسٹر دیکھتا ہے۔ جس میں ایک خوبصورت انداز سے چکن برگر کو ظاہر کیا ہوتا ہے۔ یہ دیکھتے ہی وہ اس رسٹورینٹ میں جا کر چکن برگر پارسل کا آرڈر دے دیتا ہے۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اپنا ڈبہ لے کر گھر روانہ ہوجاتا ہے۔

مطلب کہ آپ نے اپنے کسٹمر کو کامیاب انداز میں اپنی کمیونیکیشن اور اشتہارات کے ذریعے اپنی چیز کو سیل کر کے منافع حاصل کرلیا ہے۔ مگر یہ منافع وقتی طور پر ہے کیونکہ وہ غریب کسٹمر گھر پہنچتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ڈبے کے اندر موجود چکن برگر نہیں بلکہ انڈے والا برگر ہے۔
نوٹ: اس بات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ جیسے انڈے والے برگر کی توہین کی جارہی ہے۔

اس کہانی کا مقصد یہ ہے کہ اب وہ کسٹمر دوبارہ کبھی اس ریسٹورینٹ کا رخ نہیں کرے گا اور ساتھ میں اپنے قریبی احباب کو بھی وہاں نا جانے کی نان پرافٹ تلقین کر گا۔

ہر ادارے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام شعبہ جات میں پوری محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کامیاب ادارے کو ڈبونے کے لیے کسی بھی ایک شعبہ کی کوئی بھی ایک چھوٹی سی غلطی ہی کافی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).