ہماری تنخواہیں فوج کے برابر ہونی چاہئیں


ہم چمن بارڈر پر ایف آئی اے اور کسٹمز کا کام نہیں کرنا چاہتے، آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم انجم فوٹو:فائل

ہم چمن بارڈر پر ایف آئی اے اور کسٹمز کا کام نہیں کرنا چاہتے، آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم انجم

آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ ہم سرحد پر ایف آئی اے اور کسٹمز کا کام نہیں کرنا چاہتے اور ہماری تنخواہیں فوج کے برابر ہونی چاہئیں۔

سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔ آئی جی ایف سی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایف سی میں خیبرپختون خوا پولیس جیسی اصلاحات ہونی چاہئیں، امریکا نے ہم سے 7 ہیلی کاپٹر واپس لے لیے ہیں اور اب ہمارے پاس کوئی ہیلی کاپڑ نہیں ہے، ہمارے مینٹیننس بجٹ میں 97 فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے، چمن بارڈر پر ایف سی ایف آئی اے اور کسٹمز کا کام کرتی ہے، ہم یہ کام نہیں کرنا چاہتے، ایف سی کے جوانوں کی تنخواہیں فوج کے برابر ہونی چاہئیں۔

میجر جنرل ندیم انجم نے کہا کہ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ ایف سی اور 10 فیصد سیکیورٹی پولیس کے پاس ہے، لشکر جھنگوی کا وجود بھی بلوچستان سے ختم ہوتا جا رہاہے، جن دہشتگردوں نے سرنڈر کیا ہم نے انہیں گلے لگایا اور معاونت کی، ان افراد کو ہر طرح کی مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کی گئی، گزشتہ سال افغانستان فورسز کی جانب سے سرحد پر حملہ کیا گیا، جس میں ایف سی کے 10 جوان شہید ہوئے اور جوابی کارروائی میں افغانستان فورس کے 50 اہلکار ہلاک کیے گئے۔

آئی جی ایف سی نے کہا کہ  داعش کا بلوچستان میں وجود نہیں ہے جب کہ لشکرجھنگوی کا وجود بھی بلوچستان سے ختم ہوتا جا رہا ہے، 2 سال کے دوران 5 ہزار 8 سو 88 آپریشن کیے گئے، 133 دہشتگرد ہلاک ہوئے اور 652 نے سرنڈر کیا، 3 لاکھ 35 ہزار 74 گولہ بارود اور اسلحہ قبضے میں لیا، زائرین کی سیکیورٹی میں کافی بہتری آئی ہے، پہلے ایک سال میں 15 ہزار اب ایک سال میں 1 لاکھ سے زائد زائرین جاتے ہیں۔

سینیٹررحمان ملک نے کہا کہ بھارت اورافغان ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑہے، دونوں ملکوں کے ایجنسیوں کا ٹارگٹ بلوچستان اورفاٹا رہا ہے، ہم بلوچستان کے بہادرعوام کوسلام پیش کرتے ہیں، بلوچستان کے عوام نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ملکرامن قائم کیا، ملکی سلامتی کیلئے ہم سب ایک ہیں اورپاکستانی پرچم جھنڈے کے تلے دشمن کے خلاف متحد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).