اقلیتوں کے ساتھ سلوک: ایک محترم کے جواب میں


\"irfanبرادر محترم بہت اعلیٰ قلم کار ہیں اور فاضل صحافی ہیں۔ لیکن گزشتہ چند کالموں میں انہوں نے کچھ غلط مفروضات  کی بنیاد پر ایک بیانیہ تشکیل دے رکھا ہے، جس کی وہ زور و شور سے حمایت کر رہے ہیں۔ اور کچھ بے اعتدالی ان کی موقف میں نظر آتی ہے۔ اس کالم میں ہم نے اس پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کالم میں فقط سسٹم اور سماج کے رویوں پر بات کی گئی ہے۔

برادر محترم نے اقلیتوں کے مسئلے پر وہی غلط العام طریقہ استدلال اختیار کیا ہے جو اکثر لوگ اپنے من پسند گروہ کی حمایت اور دوسرے کم پسند گروہ کے کیس کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ عمومیت کے پردے میں خصوصی رویوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ہمارے ممدوح بھی سسٹم کی خرابی کی آڑ میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی خصوصی زیادتیوں کا مسئلہ تحلیل کرتے نظر آتے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ ملک کا سسٹم غیر منصفانہ ہے جو طاقتور کے ساتھ کھڑا ہو کر مظلوم کو دباتا ہے، غیر مسلم اقلیتیں بھی کمزور ہونے کی وجہ سے اسی عام رویے کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں جیسے کمزور مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ اس استدلال کو میں جانبدارانہ تجزیہ اگر نہ کہوں تو تجزیاتی سادگی البتہ ضرور کہوں گا۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا آپ نے فرمایا تو بتائیے کہ اس لحاظ سے تو طاقتور غیر مسلموں کو تو اس سسٹم میں تحفظ حاصل ہونا چاہیے تھا لیکن دیکھیے کہ امیر، طاقتور غیر مسلم بھی سماج کے امتیازی رویوں سے بچ نہیں پاتے۔ حتٰی کہ وہ غیر مسلم جو ملک کے طاقت ور اداروں سے وابستہ ہیں ان امتیازی رویوں پر شکوہ کناں ہیں۔ ان کی وفاداری پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے۔ اور ہر وقت انہیں اپنے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ضرورت سے زیاوہ ہوشیار اور محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ملازمتوں میں، پولیس کے رویے میں، عام انسانوں کے ساتھ معاشرتی رہن سہن میں ہر جگہ اقلیتوں کو اقلیت ہونے کی وجہ سے امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔ چاہے وہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں۔

آپ کے نزدیک شاید زیادتی کا مفہوم بھی مختلف ہے۔ زیادتی صرف یہ نہیں کہ غیر مسلموں کا ناطقہ بند کر دیا جائے، ان کے گھر، بستیاں، فیکٹریاں جلا دی جائیں، اگرچہ یہ سب بھی ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے، زیادتی البتہ یہ بھی ہے کہ ان کے غربا کے علاوہ ان کے امرا بھی خود کو دوسرے درجے کے شہری سمجھیں۔ انہیں دہشت گردوں سے ہی نہیں اپنے ہمسائیوں سے بھی خدشہ لاحق ہو کہ جانے کب وہ ان کے لیے خطرہ بن جائیں۔ غیر مسلموں کو مسلسل خدشاتی نفسیات میں مبتلا رکھنا کیا خصوصی امتیازی رویے کا نتیجہ نہیں؟

ملازمتوں کے معاملے میں، پولیس کے رویے میں، ریاست پر اعتماد کے معاملے میں ایک غریب مسلمان کو اپنی غربت اور کمزوری کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بننا پڑتا ہے لیکن لیکن غیر مسلم کو غیر مسلم ہونے کی وجہ سے بھی بننا پڑتا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ مسلمان بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اس وجہ سے غیر مسلم بھی اس کا شکار ہیں۔ حالانکہ مسلم اور غیر مسلم کی دہشت گردی کے عوامل مختلف ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تو دہشت گرد سرگرم ہیں، لیکن غیر مسلموں کے خلاف تو غیر دہشت گرد، سیاست دان، پولیس اور عوام کے گروہ بھی حسبِ توفیق شامل ہوجاتے ہیں جو ان کی بستیاں جلاتے ہیں، خود ان کو جلاتے ہیں۔ فرق واضح ہے اگر آپ دیکھنا چاہیں۔

احمدیوں کے بارے برادر محترم نے تسلیم کیا کہ مسلم عوام احمدیوں سے کھنچے ہوئے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ احمدیوں نے آئین میں ہونے والی ترمیم، جس میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، تسلیم نہیں کیا اس لیے مسلمان ان سے کھنچے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ کمزور استدلال شاید پیش کرنا ممکن نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ان سے صرف \’کھنچے\’ ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ باقاعدہ سماجی مقاطعہ (بائیکاٹ) کر رکھا ہے۔ ایک دکاندار اپنی دکان کے باہر لکھ کر لگا دیتا ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کیا جاتا، یا قادیانیوں کا داخلہ منع ہے، ان کے ساتھ بات چیت، لین دین، ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم، ان کو بیوروکریسی میں میرٹ پر بھی بڑے عہدے دینے کی مخالفت، ان کی ملکی خدمات کو تسلیم نہ کرنا، حتٰی کہ مذہبی آزادیوں پر قدغن کی پالیسی، کیا یہ خصوصی امتیازی رویے نہیں؟ اور اس کی وجہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ ہے کہ انہوں نے آئین کے مطابق خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ احمدیوں نے اگرچہ دل سے اسے تسلیم نہیں کیا لیکن قانونی طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔ وہ اپنا تعارف مسلم نہیں بلکہ احمدی کے طور پر کرواتے ہیں، وہ اپنی مساجد کو مسجد نہیں کہتے، کھلے عام تبلیغ نہیں کرتے، اپنی کتب سر عام چھپوا نہیں سکتے۔ اس کے باوجود ان کو غیر مسلم شہری کا درجہ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر ہمارا اس بات پر مُصر ہونا کہ وہ دل سے بھی تسلیم کر لیں کہ وہ غیر مسلم ہیں، اور خود کو \’دھکے سے مسلمان ثابت نہ کریں\’ ایک اعتدال سے حد درجہ ہٹی ہوئی بات ہے۔

میں بھی احمدیوں کے ختم نبوت کے بارے میں ان کے خاص قسم کے عقیدے کی وجہ سے انہیں غیر مسلم ہی شمار کرتا ہوں۔ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم سمجھیں، لیکن انہیں بھی یہ حق ہے کہ وہ خود کو اگر مسلمان سمجھتے ہیں تو سمجھا کریں۔ اپنی عبادات اور دینی طرزِ عمل کے لیے وہ قرآن، سنت اور شریعت اسلامیہ کو ہی استعمال کرتے ہیں، اپنے بچوں کو وہ یہی بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اب ان کو یہ تسلیم کروانا کہ وہ خود کو غیرمسلم تسلیم بھی کرلیں اور صرف تب ہی ہم انہیں غیرمسلم کے حقوق دیں گے، بد ترین استحصالی نفسیات کا مظہر ہے ۔ان کا خود کو احمدی کہنا کافی امتیاز ہے۔ تسلیم کروانا کسی کے بس میں ہوتا تو ان کو ختم نبوت کا عقیدہ ہی تسلیم نہ کروا لیتا۔

کیا اگر وہ محض زبان سے تسلیم کر لیں کہ وہ غیر مسلم ہیں جب کہ دل میں وہ خود کو مسلمان سمجھتے ہوں، تو ہم ان کو قومی دھارے میں شریک کر لیں گے؟ یقیناً کر لیں گے۔ البتہ منافقت کا یہ نیا انداز ہوگا، کہ وہ ( اپنے مطابق ہی سہی) ظاہر میں کافر اور باطن میں مسلمان ہوں گے، کیا ہم انہیں اس سطح پر لانا چاہتے ہیں؟ اور کیا یہ رویہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟

دینی غیرت کا مظاہرہ ہم اس طرح نہیں کر سکتے جس طرح ہم اپنی ذاتی چیزوں سے متعلق کرتے ہیں۔ دینی غیرت کا مظاہرہ دینی تقاضوں کے مطابق ہی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس پر بھی بات کیجیے کہ اسلام دعوت کا دین ہے۔ اس میں بائیکاٹ کہاں سے آگیا کہ دعوت کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔ بھلا نفرت اور دھمکی کے ساتھ بھی کسی کو دل سے مسلمان کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے ہاں لوگوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے ان کا بایئکاٹ کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا، جب کہ پوری دنیا میں احمدی عام مسلمانوں کی طرح رہتے ہیں۔ دعوت بھی دیتے ہیں۔ لیکن کیا عام مسلمانوں کے ایمان کو اس سے کوئی تشویش لاحق ہوتی ہے؟ کیا مسلمان دھڑا دھڑ قادیانی ہو رہے ہیں؟ نہیں، تو پھر یہاں کیوں بات بات پر اسلام اور ایمان کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں؟ اور ان سے خود کو غیر مسلم منوانے کا نامعقول مطالبہ کیا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتیں دوہری زیادتی کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ سسٹم کی عمومی ناانصافی کا بھی شکار ہیں اور دوسری طرف وہ مسلم اکثریت کی طرف سے خصوصی امتیازی رویوں کا بھی ہدف بنے ہوئے ہیں۔

ہم معاشرے کے ہر مسئلے کو معاشرے کے عمومی پس منظر میں دیکھنے کے ساتھ اس کے خصوصی پس منظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ مثلاً عورتوں کا استحصال، چائلڈ لیبر، بچوں کے استحصال وغیرہ کو معاشرے کے عمومی رویے سے بھی جوڑتے ہیں اور پھر ان کے خصوصی پس منظر اور عوامل پر بھی بات کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم یہی طریقہ اقلیتوں کو درپیش مسائل میں اپناتے ہیں تو یہ اصرار کرنا کہ اقلیتوں کے مسئلے کو بس عمومی پس منظر میں ہی دیکھا جائے، غلط استدلال ہے۔ جب تک ہم درست تشخیص نہیں کریں گے، ایسے رویوں کا درست علاج تجویز نہیں کر پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments