سرمایہ کاری کی دعوت کا بہترین طریقہ!


جناب احسن اقبال موجودہ سیاسی افق پر ایک اعلی تعلیم یافتہ، مہذب، شائستہ، نرم خو، صلح جو، حلیم الطبع اور سلیم الفطرت شخص ہیں۔ کوئی موقع محل ہو، کیسی ہی محفل ہو ، کتنا ہی فکر انگیز یا جذباتی سیاسی موضوع ہو انہوں نے گفتار کے اسلوب کو ہمیشہ قابو میں رکھا اور اپنی زبان کو کبھی دشنام ، الزام اور اتہام سے آلودہ نہیں کیا۔ وہ مدلل اور مؤثر انداز سے موضوع زیر بحث پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا یہ خوبصورت، شائستہ اور سلجھا ہوا انداز دیکھ کر یہ شعر ذہن میں انگڑائیاں لیتا ہے۔

تیرے لہجے سے مہکتا ہے بدن لفظوں کا
تیری آوازبھی خوشبو کا سفر لگتی ہے

احسن اقبال دوران گفتگو، طعن و تشنیع، جملہ بازی، لطیفہ طرازی سے بھی کبھی کام نہیں لیتے تاہم ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں انہوں نے جناب وزیر اعظم کے چین کے سرکاری دورے کے حوالے سے ایک دلچسپ اور بر جستہ لطیفہ سنا کر محفل کو کشت زعفران بنا دیا۔ کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے مگر اس سے وزیر اعظم کے انداز سیاست اور حکومت کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک صاحب کسی گھر اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے گئے۔ رسمی سلام دعا کے بعد عرض مدعا پر آئے تو میزبا ن نے ان کے خاندان، اولاد اور خاص طور پر اس بیٹے کے متعلق پوچھا جس کا رشتہ لینے موصوف گئے تھے۔ ان صاحب نے اپنے بیٹوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرے ماشااللہ پانچ فرزندان بلند اقبال ہیں اور ہر ایک اپنے ہنر میں طاق اور یکتا ہے۔ بڑے بیٹے نے چار قتل کر رکھے ہیں۔ پورے علاقے پر اس کی ہیبت اور رعب و دبدبہ ہے۔ دوسرے نے سمگلنگ اور ڈاکہ زنی میں اس قدر نام کمایا کہ ایک دنیا انگشت بدنداں ہے۔ اس سے چھوٹا خیر سے شراب نوشی اور جوئے کا اڈہ چلاتا ہے۔ آمدنی بے تحاشا ہے۔ اس سے چھوٹا چرس، افیون، کوکین اور دوسری منشیات کے کاروبار میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ دولت کے علاوہ اس کے ہاتھ کچھ بے گناہوں کے خون سے بھی رنگے ہیں۔ ماشااللہ یہ میرا پانچواں اور آخری نور نظر ہے جو باقی چاروں کی کمائی پر عیاشی کر رہا ہے۔ بس اسی کے لیے حاضر ہوا تھا کہ آپ اسے اپنی فرزندی میں لے لیں۔

ہمارے وزیر اعظم اگرچہ آج کل بیرون ملک دوروں پر کوئی رشتہ مانگنے نہیں جا رہے مگر سعودی عرب سے لے کر چین تک سرمایہ کاروں اور حکومتوں کو قائل کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور ہمیں آسان شرائط پر قرض اور امدادی پیکچ بھی دیں تاکہ ہم معاشی زبوں حالی سے نکل سکیں۔ مگریہ آواز لگانے سے پہلے وہ پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور اداروں کی تباہی و بربادی کا ماتم ضرور کرتے ہیں۔ جب ان کی تان ہی کرپشن اور ہر پاکستانی کو کرپٹ ثابت کرنے کے معاملے پر ٹوٹے گی تو انہیں سرمایہ کاری کے حوالے سے کون خوش آمدید کہے گا؟

دوسرا بڑا مرض جو ہمارے وزیراعظم کو لاحق ہے وہ فی البدیہ تقریر جھاڑنے کا ہے۔ پتہ نہیں انہیں کس ستم ظریف نے بتا دیا کہ فی البدیہ اور بغیر تیاری انٹ شنٹ کہنے والا بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ ایسی یاوہ گوئی ، بے ربط باتیں ، الزام تراشی اور بھڑک بازی اپوزیشن میں رہ کر کینٹینر پر چڑھ کر تو شاید قابل برداشت ہوتی ہے مگر کسی غیر ملکی نازک دورے کے موقعے پر ایٹمی ملک کے وزیر اعظم کو ہر گز زیب نہیں دیتی۔ ایسی ہی کسی تقریر کے متعلق شاعر نے کہا تھا۔

بک رہاہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

پاکستانیوں پر کرپشن کا الزام لگاتے وقت پتہ نہیں وزیراعظم نے چینیوں کو یہ بھی بتایا کہ نہیں کہ ان کے والد بزرگوار کو بھی کرپشن کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا! وزیر اعظم کے بیرونی دوروں کے دوران اسی کرپشن نامے کی بدولت کوئی دوست ملک ہماری کھل کر مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم اپنے وزیراعظم سے دست بستہ عرض کریں گے کہ وہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری، قرض اور پیکجز اس طرح نہ مانگیں جس طرح فلم “شعلے” میں امیتابھ بچن نے ہیمامالنی کی ماں سے اپنے دوست دھرمیندر کے لیے اس کا رشتہ مانگا تھا اور جب ہیمامالنی کی ماں(موسی) نے لڑکے کے بارے میں استفسار کیا تھا تو امیتابھ نے اس کا تعارف بالکل اس طرح کروایا تھا جس طرح آج کل بیرون ملک ہمارے وزیراعظم اپنی قوم کا کروا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سرمایہ کاری کی دعوت کا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).