متر پیارے نوں۔۔۔ حال مریداں دا کہنا


اس نے جب کار کو بڑی سڑک سے اتار کر بائیں طرف جانے والی کچی سڑک پر ڈالا تو اس کی نظر یونہی کلائی کی گھڑی پر پڑ گئی۔ دن کے دس بجنے والے تھے۔

مئی کا آغاز تھا اور صبح کا وقت لیکن دھوپ ابھی سے چربی پگھلا رہی تھی۔ سورج کے جلال کا اندازہ اسے تھوڑی دیر پہلے اس وقت ہوا تھا جب وہ اپنے ٹھنڈے ٹھار بنگلے کے رہائشی حصے سے نکل کر پورچ میں کھڑی اپنی کار تک آیا تھا۔ اس مختصر وقفے میں اس کی کلف لگی کڑ کڑاتی قمیض کے نیچے اس کی حساس جلد جیسے رو پڑی تھی۔ آستینوں پر پسینے کے لمبوترے نشان نمایاں ہو گئے تھے اورقمیض کا سخت کالر اندر سے گیلا لگنے لگا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کراس نے سب سے پہلے اپنے گریبان کا ایک بٹن کھولا اور بازووں کو آستینوں کی قید سے آزاد کرایا۔ ٹشو پیپر سے پسینہ پونچھا تو کچھ سکون کا احساس ہوا۔ اس نے چابی گھما کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ اے سی آن کیا۔ گاڑی کو گئیر میں ڈالا اور پورچ سے باہر لایا اور پھر الٹے ہاتھ مڑ کر اس سڑک پرہو لیا جو بالآخر اسے بڑی شاہراہ سے جا ملاتی۔

اب اسے سفر آغاز کیے کوئی پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔  بڑی شاہراہ پر ٹریفک اس وقت نہ ہونے کے برابر تھی اس لئے وہ بآسانی اڑا چلا جا رہا تھا۔ گاڑی کے گدازگدیلوں کی نرم راحت، ائیر کنڈیشنر سے نکلتی یخ بستہ ہوا کی پھوار، سی۔ ڈی پلئیر پر چھن چھن بجتے میوزک اور ڈسپلے بوڑد پر ناچتی ہوئی رنگین بتیوں نے مل کر ایسا ماحول پیدا کیا کہ وہ باہر برستی ہوئی قہر انگیزگرمی کو بالکل بھول گیا بلکہ تھوڑی دیر کو یہ بھی فراموش کر بیٹھا کہ وہ گھر سے نکلا کیوں تھا۔ ایکا ایکی لاشعور میں بجنے والا ایک الارم اسے ہوش کی دنیا میں واپس لے آیا تھا کہ اس کی منزل اب قریب تھی۔

کچی پگڈنڈی نما سڑک پر لگنے والے متواتر ہچکولے ابھی جاری تھے کہ سیدھے ہاتھ پر ایک سپاٹ میدان آگیا۔ اس نے گاڑی اسی طرف کو موڑ دی۔

اس کی منزل آ گئی تھی۔ سامنے قبرستان تھا۔

اس نے کار کو کچھ دور آگے سفیدے کے درخت کے نیچے پارک کر دیا۔ گاڑی کا دروازہ بند کر کے اس نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا تو ایک ہلکی سی چیخ نما آوازکے ساتھ گاڑی لاک ہو گئی۔ اس نے اپنے سیل فون اور کار کی چابی کو کھیسے میں ڈالا اور قبرستان کی سمت بڑھا جس کا داخلی دروازہ پستہ باونڈری وال کے ایک کونے میں جنگلہ نما دھاتی پٹ کی شکل میں موجود تھا۔

اس شہر خموشاں کو آبادی سے خاصا ہٹ کر بنایا گیا تھا۔ عقب میں ایک گہری کھائی تھی اور کھائی کے پیچھے چھوٹی بڑی نیم سبز اورخشک پہاڑیوں کا ایک سلسلہ حد نگاہ تک چلا گیا تھا۔ اطراف میں جہاں جہاں زمین کے ہموار ٹکڑے تھے وہاں پر گندم کی فصل تیار کھڑی تھی۔ سیدھے ہاتھ پر کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک قدرے چوڑا ہموار مگر کچا راستہ اس کے اپنے گاؤں کو جاتا تھا جو یہاں سے کچھ ہی دیر کی پیدل مسافت پر واقع تھا۔ شدید گرمی کے باعث آس پاس کوئی ذی نفس نظر نہ پڑتا تھا سوائے اکا دکا دیہاتیوں کے جنہوں نے لو سے بچنے کے لیے اپنے صافے گیلے کر کے سروں پر ڈال رکھے تھے۔  البتہ سر پھرے لڑکوں کی ایک ٹولی اس قیامت کی حدت میں بھی قبرستان سے ملحقہ ایک ہموار قطعہ زمین کو میدان بنائے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھی۔ ماحول پر پھیلے ہوئے مکمل سناٹے کو ان لڑکوں کی بے ہنگم ہاؤ ہو ہی کبھی کبھی توڑتی تھی۔ ان بے پرواہ کھلنڈرے لڑکوں کو دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ گیا جب وہ خود بھی یہیں کہیں اپنے سنگی ساتھیوں کے ہمراہ کھیل کود میں مصروف رہا کرتا تھا۔ اسی طرح موسم کی سختیوں سے بے نیاز۔ کبھی کبھی تو وہ گھر سے سکول جانے کی بجائے یہیں آ جاتا تھا اور چھٹی کے وقت بستہ اٹھا کر گھر چلاجاتا تھا۔ اماں اس کی ایسے بلائیں لیتی تھی کہ جیسے وہ بہت پڑھائیاں کر کے آیا تھا۔

اماں۔  وہ یہاں اپنی اماں سے ہی تو ملنے آیا تھا جو عرصہ ہوا آبادیوں کو چھوڑ کر اس ویرانے میں آن بسی تھی۔

قبرستان میں داخل ہو کر دائیں ہاتھ پر برگد کے ایک پرانے درخت کے نیچے اسے وہ کھوکھا نما دکان نظر آئی جو اس شہر خموشاں کی واحد دکان تھی۔ وہ سیدھا نکل جانا چاہتا تھا لیکن دکان میں رکھی پھول پتیوں کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ اسے یاد آیا کہ آخری مرتبہ جب وہ یہاں آیا تھا تو اس نے دکان میں ایک بوڑھا بابا بیٹھا دیکھا تھا۔ لیکن آج اس کی جگہ ایک نوعمر نوجوان موجود تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ اسی بابے کا بیٹا تھا۔ شکل اسی کی طرح تھی مگر اس وقت سامنے رکھی ہوئی پتیوں زیادہ کمہلائی ہوئی اور پریشان تھی۔ پتیوں کے ساتھ دکان میں گیندے اور گلاب کی لڑیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔  ان کے علاوہ اگر بتیوں کے پیکٹ، ماچسیں، پرندوں کے لیے باجرہ، چینی کے بنے مکھانوں کے پیکٹ حتی کے سگریٹ کی ڈبیاں بھی دکان کے سامان کا حصہ تھیں۔

‘ کیا حال ہے پتر؟ ’ اس نے زرد رو لڑکے کو مخاطب کیا۔ اسی وقت اسے لڑکے کے باپ کا نام بھی یاد آ گیا۔ ’ تو مجھے بابا غلام حسین کا لڑکا لگتا ہے؟ ’

لڑکے نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3