لڑکیاں اس زمین پر غیر محفوظ ہیں


\"husnainآپ ایک مرد ہیں۔ آج کل شدید گرمیوں کا موسم ہے، فرض کیجیے آپ دفتر سے تھکے ہارے گھر آئیں اور غسل خانے میں گھس جائیں، آدھے پونے گھنٹے تک نہائیں، آرام دہ لباس پہنیں اور بستر پر دراز ہو جائیں۔ کیسا اچھا محسوس ہو رہا ہو گا؟ اسی وقت آپ کا فون بجے اور کوئی نامعلوم انسان آپ کو بتائے کہ آپ کی ویڈیو بن چکی ہے، اسے انٹرنیٹ پر جانے سے بچانا ہے تو ہمارا فلاں مطالبہ مان لو۔ کیا کریں گے آپ؟

آپ سوچیں گے کہ یہ ہوا کیسے، آپ غسل خانے جا کر دیکھیں گے شاید کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو، یا ایگزاسٹ فین کے سوراخ سے یہ حرکت کی گئی ہو، یا کسی اور طریقے سے۔ آپ یقیناً جاننے کی کوشش کریں گے۔ اسی دوران آپ کو نظر آ جائے گا کہ کھڑکی میں ذرا سی درز کھلی تھی اور آپ کو یاد نہیں رہا کہ اسے بند کر لیں اور یوں موقع کی تلاش میں گھومتا کوئی جرائم پیشہ انسان آپ کی ویڈیو بنا گیا۔ مرد ہوتے ہوئے بھی آپ ہونق ہو جائیں گے، اس شخص سے مذاکرات کریں گے اور کسی بھی طرح اپنی جان چھڑوائیں گے، یا پولیس میں رپورٹ کروا دیں گے، یا پھر تلاش کر کے مار پیٹ کریں گے، یہی تین حل ہوں گے آپ کے پاس۔ سوچیے اس دوران اگر وہ ویڈیو آپ کے نام سے انٹرنیٹ پر چلی جاتی ہے تو آپ کیا کریں گے۔ دفتر، گھر، دوستوں میں، رشتہ داروں میں کیا منہ دکھائیں گے؟ اچھا اس سب معاملے میں آپ کا قصور کیا تھا؟

اب یہاں فرض کیجیے یہاں کوئی خاتون ہوں۔

اور فرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ایک خاتون ہیں جن کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اور ان کے ساتھ گھر کی چاردیواری میں اپنے کمرے کے اندر یہ سب کچھ ہوا۔ \”بیس سال کے آس پاس کی عمر کے چند لڑکے نہ جانے کس طرح سے میرے کمرے کی کھڑکی کھولنے میں کامیاب ہو گئے، اور کپڑے بدلتے ہوئے میری ویڈیو بنا لی، انہوں نے اندر ایک کاغذ پھینکا جس کے ذریعے وہ مجھے بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔ پہلے میں سمجھی شاید اس پرچی پر وہ لڑکا اپنا موبائل نمبر لکھ کر پھینک گیا ہو گا، جیسا کہ اکثر بازاروں میں بھی ہوتا ہے، مگر جب وہ سب ڈھیٹ بن کر وہیں کھڑے رہے اور زور دیا کہ فوراٌ یہ کاغذ پڑھو تو میں نے غصے میں آ کر اسے کھول لیا۔ اب وہ آوازیں دے کر مجھے باہر آنے کا کہہ رہے تھے تاکہ میں ان سے ملوں اور جو وہ کہیں اسے پورا کر دوں۔ جب میں نے انکار کیا تو وہ بولے؛ \”باہر نکل، تجھے بتاتے ہیں\” پھر میں غصے پر قابو نہ پا سکی اور اپنے والد کے ساتھ باہر نکلی تاکہ ان کے دماغ درست کر سکوں۔ لیکن وہ میرے شور مچاتے ہوئے باہر آنے پر بھاگ چکے تھے۔ شور مچاتے ہوئے مجھے یہی خیال تھا کہ میری کالونی کے لوگ جاگ جائیں اور صورت حال جان سکیں۔\”

\"??????????\"

وہ ہمسایوں سے مدد کی امید رکھتی تھیں، عین ویسی ہی مدد جیسے چور کے گھس آنے پر لوگ ایک دوسرے کی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شدید مایوسی ہوئی۔ ہماری درخشاں روایات کے عین مطابق انہیں یہ مدد ملی؛ تمہاری کھڑکی کیوں کھلی ہوئی تھی؟ کہیں اس لڑکی کا ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی چکر تو نہیں؟ انہیں اس قسم کے سوالات سننے پڑے۔

 \”جیسے واقعی یہ سوال کچھ اہمیت رکھتے تھے۔ وہ لوگ واقعی جانتے تھے کہ اس طرح کی حرکت کر کے وہ بہت آرام سے فرار ہو جائیں گے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ اور یہ حرکت کرنے کے بعد مجھے بلانے اور بلیک میل کرنے کی ہمت بھی اسی وجہ سے ان میں پیدا ہوئی تھی\”

یہ خاتون عسکری ون اپارٹمنٹس کی رہائشی ہیں جو کہ مکمل طور پر محفوظ اور بند (Gated) کالونی ہے۔ کالونی کے اندر پارک کے ساتھ ان گھر ہے۔ ان کی ایک کھڑکی پارک کا منظر پیش کرتی ہے یعنی باہر کی طرف ہے۔ رات بارہ بجے یہ واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد انہوں نے یہ خبر ایک سوشل میڈیا پیج پر دی جہاں سے ایک انگریزی اخبار نے یہ واقعہ درج کیا۔

وہ باہمت خاتون تھیں، والدین کا اعتماد اور تربیت حاصل تھی تو انہوں نے ان سے مدد لی اور دوسروں کو بھی محتاط کر دیا، خود بھی بچ گئیں۔ اگر یہ واقعہ کسی عام لڑکی کے ساتھ پیش آتا تو وہ بے چاری کیا کرتی۔ ڈر کے مارے شاید خود کشی کر لیتی یا ان بد بخت مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتی۔ یہ دونوں کام نہ ہوتے تو پولیس اسے خوار کر دیتی۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر لکھنے کے بعد بھی ان کو اس قسم کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کھڑکی کھلے رکھ کر کپڑے کون بدلتا ہے؟ ( حالاں کہ لکھا جا چکا ہے کہ کھڑکی کسی طرح کھولی گئی تھی)

ریکارڈنگ تو چلو ہو گئی، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے گھر کوئی کیسے داخل ہو سکتا ہے؟ (بھائی کھڑکی باغ میں کھلتی ہے اور وہ کمیونٹی پارک ہے)

تم لڑکیاں اپنے کمرے کی کھڑکیاں بند رکھ کر کپڑے بدلو تو کبھی بھی ایسا نہ ہو۔ (گویا پوری بات بھی نہیں پڑھی اور روائتی حملے شروع ہو گئے)

کھڑکی لاک کیوں نہیں کی تھی؟ (لاک خراب ہو سکتا ہے یا لاک توڑا بھی جا سکتا ہے)

یہ نمونے کے چند سوال تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ چاردیواری میں قید رہ کر بھی اگر عورت محفوظ نہیں تو پھر پیدا ہوتے ہی گاڑ دیں، پالنے کا تکلف کیوں کرتے ہیں۔ یہ ہمارے رویے ہیں جن کا شکار مجموعی طور پر ہماری قوم کا نصف حصہ روز بنتا ہے۔ ٹی وی پر آ کر ان کو گالیاں دینا، پسند کی شادی کرنے پر جلا دینا یا اسمبلی میں بیٹھ کر ان پر جگتیں کسنا تو ہمارے اعلی اور روشن خیال طبقوں میں بھی رائج ہے، سوچیے ایک مڈل کلاس عام عورت بے چاری ہر روز کس عذاب سے گزرتی ہو گی۔

سکول، کالج یا دفتر میں کوئی لڑکا تنگ کرے، فیس بک پر کوئی دھمکی دی جائے، کسی رانگ نمبر سے فون آ جائے، راہ چلتے چھیڑا جائے یا پیار محبت کے جھوٹے وعدے کر کے کوئی لڑکا ناجائز فائدے اٹھا لے، قصور ہمیشہ لڑکی کا ہوتا ہے۔ وہ ماں باپ بھائی شوہر میں سے کسی کو بھی بتائے گی تو پہلا شک اسی پر کیا جائے گا، پابندیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا، روک ٹوک جو پہلے ہی دم گھونٹنے والی ہے مزید ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ اس خوف سے وہ عموماً اپنے معاملات خود حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان میں الجھتی چلی جاتی ہیں۔ اگر ہر لڑکی اپنوں کے لیے اتنی قابل اعتبار ہو کہ وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے غلط معاشرتی رویوں سے آگاہ کر سکے تو شاید ہماری اگلی نسل زیادہ پراعتماد، کارآمد اور روشن دماغوں والی ہو گی، ورنہ شاہ دولہ کا مزار فی الحال ایک ہے، بیس سال بعد ہر گھر میں ہو گا۔

(حسنین بھائی، ان کم بختوں کا نہ اخلاق اچھا ہے اور نہ سپیلنگ درست ہیں۔ ہینڈ رائیٹنگ سے البتہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی انگریزی میڈیم سکول میں تعلیم پائی ہے۔ تربیت کی کمی بہرصورت واضح ہے۔۔۔ مدیر) 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments