جاوید چوہدری، اوریا مقبول جان اور سطحی مذہبیت


ٹی وی اینکر جاوید چوہدری اپنے پروگرام کا آغاز درودِ پاک سے کرتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ ایک لائقِ تحسین عمل ہے مگر موجودہ حالات میں اس کا ایک اور تناظر بھی ہے جو کہ پورے معاشرے سے متعلق ہے۔
عشقِ رسولﷺ ایک قلبی اور باطنی کیفیت ہے۔ قلبِ انسانی سے اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کا براہ راست رابطہ استوار ہوتا ہے لہذا انسان کو اپنے اس جذبے کا گواہ کسی اور انسان کو بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ لوگوں کے سامنے اس کے اظہار اور اعلان کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دوسروں کو اپنے ایمان کا یقین دلانا مقصود ہو۔ موجودہ معاشرتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ بعید از قیاس نہیں کہ جاوید چوہدری صاحب بھی ہر پروگرام کے آغاز میں اپنا یہ سرٹیفیکیٹ پیش کرتے ہیں مگر شومیُ قسمت کہ جنھوں نے اس سرٹیفیکیٹ کی تصدیق یا تنسیخ کا بزعمِ خود ذمہ اٹھا رکھا ہے انہیں بدستور ان کے ایمان پہ تشویش لاحق ہے۔
حال ہی میں جاوید چوہدری صاحب نےاپنے کالم میں ذکر کیا کہ حج اور عمرے کی ادائیگی میں پاکستانی پہلے نمبر پہ ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان کا شمار دنیا کی بد دیانت ترین اقوام میں بھی ہوتا ہے۔ یہ موازنہ اوریا مقبول صاحب کو ایک آنکھ نہ بھایا لہذاٰ انہوں نے سرٹیفیکیٹ منسوخ کرتے ہوئے جاوید چوہدری صاحب کو دین سے بغض و عناد رکھنے والوں میں شامل کردیا (بغیر نام لیے مگر واضح اشارہ کرتے ہوئے)۔ عجیب بات یہ ہے کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اوریا مقبول جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ اس حد تک عامیانہ اور غیر عقلی ہوتے ہیں کہ شک ابھرنے لگتا ہے کہ یہ انتہائی عامیانہ طرزِ استدلال خالصتاً دانستہ ہے یعنی ایسا ممکن ہی نہیں کہ کوئی معمولی علم و عقل رکھنے والا انسان بھی ایسا استدلال پیش کرے۔ مثلاً اوریا صاحب ہی کے بقول حج اور عمرے اور معاشرے میں بددیانتی کا موازنہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت میڈیا زیادہ پھل پھول رہا ہے تو گویا اسے پاکستان میں بڑھتی بددیانتی سے جوڑ دیا جائے۔ اب حج و عمرہ ادائیگی کی کثرت اور معاشرے کی موجودہ اخلاقی گراوٹ دونوں سامنے کی حقیقتیں ہیں جنہیں جھٹلانے کے لیے عامیانہ پن ہی نہیں بلکہ ایک ذہنی کجی درکار ہے اور اوریا مقبول جیسے قلم کار شاید اسے باقاعدہ تخلیق کرتے ہیں جس کا واضح مقصد ذہنی پسماندگی کے شکار معاشرے میں پائی جانے والی سطحی مذہبیت کو نہ صرف قائم رکھنا بلکہ اسے مزید ترویج دینا ہوتا ہے۔ خادم حسین رضوی اور رفقاء کی جانب سے مذہب کے نام پہ پھیلائی جانے والی موجودہ بد امنی اسی طرزِ فکر کا شاخسانہ ہے۔
عشق ایک پاکیزہ اور ارفع تصور ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ سے عشق کا لازمی نتیجہ انسان میں ان اعلٰی صفات کا ظہور ہونا چاہیئے جن کا حصول محض ایک دنیاوی زندگی گزارنے والے انسان کے لیے ممکن نہ ہو۔ عظیم فلسفی نطشے کا “فوق البشر” محض ایک شاعرانہ تصور تھا جس کے حصول کا کوئی قابلِ عمل نسخہ سطحِ حقیقت پہ نمودار نہیں ہوا مگر دینِ اسلام کا مومن اعلیٰ انسانی اخلاق کا نمائندہ ہے اور قرآن و سنت کی شکل میں اپنی تشکیل کا عملی لائحہ عمل رکھنے کا دعویدار ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں مذہب کو بحیثیت شناخت جس طرح فروغ دیا گیا اور بدستور دیا جارہا ہے اس سے مذہب کا باطنی پہلو کلی طور پہ فراموش ہوگیا اور چونکہ حسنِ عمل نے باطن سے پھوٹنا تھا لہذا معاشرہ محض مذہبی شناخت اختیار کرتے کرتے اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتا گیا۔ نتیجہ رویوں میں اشتعال اور تشدد، فکر میں پسماندگی اور طبیعت میں ہیجان خیزی کی صورت میں نکلا اور معاشرے میں ایک ایسے طبقے نے جنم لیا جو اعلٰی اخلاقی صفات تو درکنار، بنیادی انسانی اخلاقیات سے بھی محروم ہے مگر دین کے لیے مر مِٹنے کا دعویدار ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ احتجاجی مظاہروں میں اللّٰہ اور رسول کے نام پہ لوگوں کی املاک تباہ کرنے والوں کے لیے یہ کلمۂ خیر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب کیونکہ نبیﷺ کی محبت میں کیا جا رہا ہےاس لیے روا ہے۔ مذہبی شناخت کے غلبے کا ہی اثر ہے کہ لوگ مکروہاتِ زندگی سے دستبردار ہوئے بغیر اپنے اعمال کے کفارے کے طور پہ جوق در جوق عمرہ و حج ادا کر آتے ہیں، محفلِ میلاد ، عرس اور ختمِ نبوت کی محافل میں عشقِ رسول کا دم بھرتے ہیں اور پھر واپس دنیا کی غلاظتوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا شمار دنیا کے بددیانت ترین معاشروں میں ہو تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اللّٰہ اور رسولﷺ کو ایسے ماننے والے چاہئیں جو دین کے نام لیوا تو ہوں مگر اخلاق و کردار سے عاری ہوں؟ کیا انسانیت ایسے مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرے گی جو انسانوں میں تہذیب و اخلاق کی بجائے محض اپنی عقیدت کو جنم دے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).