فیض احمد فیض کی نظم رقیب سے کے حوالے سے



فیض احمد فیض، اردو شاعری میں بیسویں صدی کا سب سے بڑا نام۔ جن کی تخلیقی، تنقیدی،اور نظریاتی برتری نے اردو ادب کو نئے آسمان اور نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ جن کے زیرِاثر پروان چڑھنے والی نئی پود نے طرزِ ادا اور اندازِفکر میں فیض کی کھل کر تقلید کی۔

ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

فیض کی انفرادیت، روایت کے تابع رہتے ہوئے روایت سے انحراف میں پوشیدہ ہے۔ وہ مروّجہ نظریات اور موضوعات سے اختلاف تو کرتے ہیں لیکن یہ اختلاف بودا یا منہ پھٹ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس اختلاف میں وقار اور جمال ہوتا ہے۔ جمال جو ادب کی شرطِ اوّل اور شاعری کا کمال ہے۔ جہاں تک فیض کی لفظیات یا اسلوب کا تعلق ہے۔وہ فارسی اور کلاسیکی شعری روایت کی ہی توسیعی صورت ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری غمِ دہر اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے جو ترقی پسند شاعری کے عام موضوعات ہیں۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو فیض کو اوسط درجے کے شاعروں سے الگ کرکے انفرادیت بلکہ عظمت کے بلند ترین مقام تک لے جاتی ہے؟ اس بارے میں جناب گوپی چند نارنگ کے الفاظ توجہ طلب ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔

’’فیض کے کمالِ فن کا ایک سامنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ انقلابی فکر کو جمالیاتی احساس سے اور جمالیاتی احساس کو انقلابی فکر سے الگ نہیں ہونے دیتے۔ بلکہ اپنے تخلیقی لمس سے دونوں کو آمیز کر کے ایک ایسی شعری لذت کو خلق کرتے ہیں جو مخصوص جمالیاتی شان رکھتی ہے اور جس کی نظیر عہدِ حاضر کی اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ــ‘‘ (گوپی چند نارنگ،فیض کا جمالیاتی احساس اور مغنیاتی نظام،جدید اردو شاعری(روایت سے بغاوت تک) ترتیب محمد الیاس کبیر،بیکن ہاؤس ،لاہور،۲۰۱۶)
فیض کے اسی کمالِ فن کی ایک مثال ان کی لازوال نظم ’’رقیب سے‘‘ ہے۔ رقیب جو ہماری شاعری کا مذموم کردار ہے۔ جس کے لیے شعرا ء نے ’’رقیبِ لعیں‘‘ اور ’’رقیبِ روسیہ‘‘ جیسے القاب تجویز کیے ہیں۔

دشمن کو بھی نکالا مرے ساتھ بزم سے دوں گا دعائے خیر ’’رقیبِ لعیں‘‘ کو میں
ترے فدوی ترے دربار آ سکتے نہیں ہرگز ’’رقیبِ روسیہ‘‘ جاوے توں اس گھر سوں خلل جاوے

لغت میں ’’رقیب‘‘ کے کئی معنی بیان ہوئے ہیں جیسے نگران،رکھولا، نگہبان،محافظ یا دربان۔ نیزہم پیشہ جن میں باہم چشمک یا مقابلہ ہو وہ بھی رقیب کہے جاسکتے ہیں۔ سو اسی لیے رقیب کے معنی دشمن ،عدو یا مخالف کے بھی ہیں۔ جیسے غالبؔ کی مشہور غزل کا مطلع ہے :

شوق،ہررنگ رقیبِ سروساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عُریاں نکلا
اسی طرح رقیب کے معنی ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئی ایک کے بھی ہیں، اور یہی معنی رقیب کو ہماری شاعری کا اہم موضوع بناتے ہیں۔ یوں تو رقیب اردو شاعری کے اہم ترین موضوعات اور مطعون ترین کرداروں میں سے ایک ہے۔ بقول ڈاکٹر انور جمال یہ ’’بادہ و جام‘‘ کے بعد اردو شاعری کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ دبستانِ لکھنؤ نے رقیب کی ہجو میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی طرح دلّی کے شاعروں نے بھی اس کی مذمت میں اپنا حصہ ڈالا۔

یہ نہ ہوگا کہ مرے قتل سے درگزریں گے جو رقیبوں نے سکھایا ہے کر گزریں گے
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
توڑی جو اس نے مجھ سے تو جوڑی رقیب سے سوداؔ تُو میرے یار کہ یہ جوڑ توڑ دیکھ
بھونکا کریں رقیب پڑے کُوئے یار میں کس کے تئیں دماغ عفف ہے سگات کا

اعلیٰ درجے کے تخلیق کار کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پیش رو صاحبانِ کمال کے فن پاروں سے اکتسابِ فیض کرے ۔ ان کے اختیار کردہ رموز و علائم سے نئے مفاہیم پیدا کرے۔ ان کو نئے پیرائے میں ڈھالے۔
زیر، نظر نظم ’’رقیب سے‘‘ فیض کے اسی ہنر کی زندہ تصویر ہے۔ فیض نے اس نظم میں صدیوں کے دھتکارے رقیب کو رازدان اور ندیم کا مقام دے دیا ہے۔ وہ رقیب کو وارفتگی اور بے ساختگی سے پکارتے ہیں۔ اسے اپنا گواہ ٹھہراتے ہیں۔ ہماری پوری شعری روایت میں رقیب سے ایسی اُنسیت کی کوئی اور مثال موجود نہیں۔
یہ نظم اسلوبی اور معنوی ہم آہنگی کا شاہکار ہے۔ فصاحت، روانی، سلاست کے ساتھ گزری یادوں ، لمحوں، گلیوں ، راستوں، ہواؤں کا مسحور کُن بیان قاری کو عجیب پُر کیف لذت سے سرشار کردیتا ہے۔
محبوب کی مہک میں کسی کو شریک ٹھہرانا آسان خیال نہیں۔ لیکن فیض غمِ الفت کے احسانوں میں رقیب کو شریک قرار دیتے ہیں۔وہ اس سمجھوتے کی وجہ بھی بتاتے ہیں:

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

اس سے آگے نظم کا گویا’’ گریز‘‘ کا حصہ ہے۔ جہاں ذکرِ جاناں، غمِ دوراں سے ملتا ہے۔ فیض کے’’ آفاقی محبوب‘‘ کایہی امتیازی پہلو ہے جو ذکرِ محبوب اور یادِ معشوق میں رقیب کے قدم رکھنے کو معیوب نہیں سمجھتا۔ نظم کا یہ حصّہ بے بسی کی صورت گری یا امیجری کی تکلیف دہ مثال ہے۔ شاعر کا کمالِ فن یہیں اپنے عروج پر پہنچتا ہے جب وہ رقیب سے بات کرتے کرتے آنِ واحد میں فکری عناصر کو محاکات کا رنگ دے کر قاری کے تمام حواس پر سوار ہو جاتا ہے۔
رقیب سے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلیں ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصوّر میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہی
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے، نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).