صنفِ نازک اور منافِق معاشرہ۔


آج اُس کی آخری انٹرنیشنل فائٹ تھی،اور آج اُس کے اطمینان پر کپکپی حاوی تھی، اُسے ڈر تھا کہ کہیں اُس کا دوسرے کھلاڑیوں پر احساس سبقت حاوی آجائے اور اِس کا کھیل خراب نہ کردے،آج کا دن اس کی زندگی کا وہ دن تھا جس کا اُسے شدّت سے انتظار تھا۔ وہ مخالف فائٹر کو آوٹ کلاس کرنے کے عزم کے ساتھ رِنگ میں اُتری تھی۔ اور اپنا سب سے بہترین دَاؤ کا سوچ رہی تھی،اُس کے والد بیٹی کی ہر فائٹ میں اُس کے ساتھ رہے، آج کی فائٹ کے لیے وہ پہلے سے پُر اُمید تھے کہ سعدیہ یہ فائٹ ضرور جیتے گی کیوں کہ سعدیہ پہلے بھی رِنگ میں کھڑی فائٹر کومتعدد بار مقابلوں میں باآسانی چت کر چکی تھی۔ سعدیہ کی کسی بھی فائٹ میں اُسے تھوڑی سی بھی چوٹ لگتی تو اس کی آہ نکلنے سے پہلے منیر صاحب کی آواز آتی میرا بچہ ٹھیک تو ہے نا۔ ۔ !، والد کے بلک اٹھنے کا ازالہ وہ حریف پر مکوں کی بارش سے کرتی۔ آج کا میچ سعدیہ کے علاوہ اس کےگھر والوں کے لیے بھی اہم تھا۔ اِس فائٹ کو دیکھنے سارے رشتہ دار جو کبھی اُس کی بحثیت لڑکی اس طرح کا کھیل کھیلنے کے خلاف تھے وہ بھی سعدیہ کے گھر بیٹھے اس کی فیملی کے ساتھ مل کر میچ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ۔ ۔

فائٹ شروع ہوئی پہلا راؤنڈ سعدیہ نے کافی مشکل سےاپنے نام کیا۔ دیکھنے والے ہر فرد کی زبان پر سعدیہ جیتے گی کا نعرہ زد عام تھا،گھر بیٹھے عزیز سعدیہ کی امی کو حوصلہ دے رہےتھے آج تو سعدیہ کو کوئی نہیں روک سکتا آج اس کی جیت پکی ہے، کھیل کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتے ہی مد مقابل نے تابڑتوڑ حملے کیے اور سعدیہ کے دائیں بازو کو ڈسلوکیٹ کر دیا، اب راونڈ پورا ہونے میں ایک منٹ کا وقت باقی تھا۔ سعدیہ ٹوٹے بازو کے ساتھ مخالف کو ٹف ٹائم دیتی رہی لیکن یہ راؤنڈ وہ جیت نہ سکی۔ تمام ناظرین کی نظریں سعدیہ پر جمی تھیں۔ سعدیہ کے بازو کا درد اسے اس دن کی یاد دلانے لگا جب وہ اسکول میں تھی تو اس کی کلاس میں ایک لڑکے سے لڑائی ہوئی تھی اور لڑکے نے سعدیہ کے ہاتھ میں پنسل کی نوک سے زخم کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے سعدیہ نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب کے بعد جو بھی اسے نقصان پہنچائے گا وہ اسے نہیں چھوڑے گی۔ گھر آکر اس نے اپنے والد سے یہ ماجرا بیان کیا اور ان سے فائٹنگ کلب میں بھائیوں کے ساتھ د اخلہ لینے کی درخواست کی منیر صاحب نے پہلے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ سعدیہ بیٹے، گاؤں کی لڑکیاں فائٹ کلب نہیں جاتیں۔

سعدیہ کے اصرار کرنے پر والد مان گئے اور بھائیوں کے ساتھ کلب بھیجنے پر راضی ہو گئے۔ کلب ماسٹر نے بھی پہلے اسے لڑکی ہونے کی وجہ سے کلب میں داخلہ دینے سے منع کردیا۔ کیوں کہ علاقے میں لڑکیاں یا تو اسکول کالج جاتی تھی یا گھر داری کرتی تھی۔ سعدیہ کا فائٹ کلب جانا وہاں کی روایات کے بر عکس تھا ۔ لیکن پھر کلب ماسٹر صرف سیلف ڈیفنس سکھانے پر مان گئے، چار مہینے ماسٹر نے سعدیہ کو ٹپس دی اور اس کی ٹرینینگ کے لیے فائٹس بھی کراتے رہے۔ ایک دن کلب میں ایک لڑکے نے سعدیہ کے ساتھ بد تمیزی کی تو سعدیہ نے اس لڑکے کی دُرگت بنا ڈالی ۔ ماسٹر نے منیر صاحب سے سعدیہ کو مزید ٹرینگ دینے سے معزرت کرلی۔ بِنا غلطی کے کلب سے نکالے جانے پر سعدیہ نے شدید احتجاج کیا اور اس لڑکے کو بھی برابر کی سزا دینےکی بات کی۔

کہا گیا کہ اس کی غلطی اس لیے نہیں کہ وہ کلب لڑکوں کا ہے اور تمہارا وہاں جانا نہیں بنتا۔ تو آج سے تم نہیں جاؤ گی ۔ سعدیہ کے ذہن پہ اس چیز کا بڑا اثر ہوا اور وہ کلب جانے والے ہر لڑکے کو اس کے نکال دیے جانے کا ذمہ دار سمجھنے لگی۔ بہن کے رویے کو دیکھ کر اس کے بھائی نے جو اس کے ساتھ کلب جایا کرتا تھا ،گھر پر ٹرینینگ دینی شروع کی۔

وقت گزرتا گیا، سعدیہ اب پوری طرح سے فائٹ جانتی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ انٹرنیشنل لیول پر ملک کے لیے کھیلے۔ مگر اس کے گاؤں سے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا،کہ کوئی لڑکی نیشنل لیول پر بھی فائٹ کرے۔ سعدیہ نے اپنے والدین کو جیسے تیسے راضی کرا لیا تھا اور وہ نیشنل گیمز کے لیے نہ صرف اسلام آباد گئی بلکہ گولڈ میڈل حاصل کیا،اور ساتھ ہی انٹرنیشنل فائٹس کے لیے بھی سیلکٹ ہوگئی۔

گاؤں کے لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے اور صنف نازک کا یہ روپ انہیں نہ بھایا، رشتےداروں نے ان کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا لیکن ان تمام حالات کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد آج کی فائٹ اس کے اعصاب کے لیے آسان نہ تھی،سعدیہ نے باقی مرحلے اپنے ٹوٹے بازو کے ساتھ نہ صرف لڑے بلکہ جیت بھی لیے، وہ لوگ جو اس کے گھر آج بیٹھ کر اس کی فائٹ دیکھ رہے تھے وہ وہی تھے جو پہلے پہل اس کا صرف صنف نازک ہونے کی وجہ سے کلب جانے پر بھی برہم تھے۔ اور آج سعدیہ جیت گئی تھی اور منافق معاشرہ اُسے داد دینے پر مجبور تھا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).