عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ علم و فضل کی توہین ہے


 مشرف حکومت نے قاسمی صاحب سے سفارت واپس نہیں لی بلکہ انہوں نے خود ہی جب یہ دیکھا کہ ملک پر ایک فوجی آمر نے حکومت قائم کر لی ہے تو وہ استعفیٰ دے کر لاہور واپس آگئے۔ بالکل اسی طرح جیسے دسمبر 2017 میں سیکرٹری اطلاعات سے اختلافات کے سبب انہوں نے معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے ایک سال پہلے ہی استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ ملک کے بہت کم لکھاریوں اور کالم نگاروں نے مشرف کی آمریت کے خلاف اس حوصلہ کے ساتھ اظہار خیال کیا ہوگا جو عطا الحق قاسمی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ آمریت کے خلاف قاسمی صاحب کی تحریروں کو نواز شریف کی حمایت یا خوشامد نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ملک پر عوامی حاکمیت کے اصول کو سربلند کرنے کے لئے لکھی گئی تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کی آڑ میں ایک آئین شکن کی حمایت اور اس کے جج اس کے نافذ کردہ پی سی او پر حلف اٹھا کر اپنی نوکریوں کا دفاع کر رہے تھے، تو قلم کا یہ مجاہد سفارت چھوڑ کر عوام کے بنیادی آئینی اور جمہوری حق کے لئے آواز بلند کر رہا تھا۔

قاسمی صاحب کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی دستاویز سے زیادہ ذاتی ایجنڈے کا پلندہ ہے۔ اس میں ایک قومی ادارے کے سربراہ کی تقرری کو انسانی حقوق کا معاملہ قرار دے کر پہلی ٹھوکر کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد عدالت کے فاضل جج خود ہی یہ طے کرتے ہیں کہ انہیں آئین کی شق 184 (3) کے تحت عطا الحق قاسمی کے معاملہ کو دیکھنے اور اس پر حکم صادر کرنے کا اختیار ہے۔ حالانکہ اس شق کی صراحت کا مطالبہ ملک کے ممتاز قانون دان اور وکلا تنظیمیں کرچکی ہیں۔ اس کے بعد یہ بتانے کی بجائے کہ کس وجہ سے قاسمی صاحب اس عہدہ کے قابل نہیں تھے، فیصلہ میں سرکاری کارروائی کی تفصیل بتا کر صراحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ عطا الحق قاسمی نے بطور چئیرمین، سفر اور دفتری سہولتوں پر کس قدر وسائل صرف کئے۔ ان میں فون، اخبار کمپیوٹر اور پرنٹر کی سہولت کا ذکر بھی موجود ہے۔

جس طرح یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ اگر عطا الحق قاسمی جیسا صحافی اور ٹی وی شناس پی ٹی وی کی سربراہی کا اہل نہیں ہے ، اسی طرح اس سوال کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے کہ صحافی اگر کاغذ ، قلم، فون اور اخبار طلب یا استعمال کرتا ہے تو اسے اصراف کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قاسمی پر یا ان کی طرف سے ہونے والے مصارف میں سفری اخراجات اور دفتر کی تزئین و آرائش کے اخراجات کا ذکر بھی کیا ہے۔ حالانکہ اس سال کے شروع میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول کئے گئے جج شوکت عزیز صدیقی کے خلاف اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین پر ناجائز طور سے وسائل صرف کرنے کے ریفرنس میں شوکت صدیقی نے مطالبہ کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اعلیٰ عدالتوں کے باقی ججوں کی رہائش گاہوں پر ہونے والے مصارف کا حساب بھی طلب کرے۔ اس سوال کا جواب لینے کی کوشش کرنے کی بجائے اس ریفرنس کو نظر انداز کیا گیا لیکن چیف جسٹس کی نگرانی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے آئی ایس آئی کے خلاف بیان دینے پر شوکت صدیقی کو بہر طور ججی سے فارغ کر کے حساب برابر کردیا۔

اگر حکومتوں کی غلطیوں کا حساب کرتے ہوئے مالی نقصان بعد از وقت اس کے اہل کاروں سے وصول کرنے کی روایت ڈالنا ہی مقصود ہے تو سپریم کورٹ اس بات کا حساب بھی کرلے کہ اس کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک کو کتنا مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اسٹیل مل اور ریکوڈک کیس میں عدالت عظمی کے فیصلوں سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ کیا جائے تو ججوں کی آنے والی سینکڑوں پیڑھیاں اس مالی نقصان کو پورا نہیں کرسکیں گی جو یہ قوم بھگت چکی ہے یا اسے بھگتنا پڑے گا۔ عطا الحق قاسمی کے خلاف فیصلہ میں ان کی تقرری کو ہی ناجائز نہیں کہاگیا بلکہ بطور چئیرمین پی ٹی وی انہوں نے جو احکامات جاری کئے تھے، انہیں بھی غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم اسی سپریم کورٹ سے جاری ہؤا ہے جو ماضی میں جمہوریت کش اقدامات کو جائز اور آمروں کی آئین شکنی کو درست قرار دیتی رہی ہے اور کسی جج کو ابھی تک اس ماضی پر شرمندگی ظاہر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم ناانصافی ہی نہیں ، علم و فضل کی توہین کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ لکھتے ہوئے یہ بھی سوچ لینا چاہئے تھا کہ جو قوم اپنے عالموں اور دانشوروں کی توقیر نہیں کرتی زمانہ بھی انہیں عزت نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali