آتش بدہن دینی مجاہدین کے نام


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

حضرات مانا کہ ایمان کا دوسرا درجہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ برائی کو زبان سے روکا جائے۔ لیکن کیا آپ کو واقعی یہ گمان ہے کہ کسی کو ننگی گالیاں دے کر آپ اسے روک پائیں گے؟  کہیں خوش زبانی کا حکم تو نہیں دیا گیا؟ کسی واضح طور پر دین بیزار شخص کے ساتھ دشنام طرازی پر مبنی گفتگو شروع کرنے پر تو جواب میں آپ خود بھی گالیاں کھائیں گے اور اس سے بڑھ کر ان مقدس ہستیوں کے متعلق نہایت توہین آمیز کلمات سننے پڑیں گے جن کی حرمت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ چلیں ہمارا دین کا علم واجبی تو سا ہے، مگر آپ میں سے کچھ تو مفتی کہلاتے ہیں، بہت سے مدارس کے طلبہ رہے ہیں اور بہت سے اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کا حصہ ہیں اور دین کو خوب جانتے ہیں۔

کیا آپ کو قرآن پاک کی یہ آیت یاد نہیں رہتی ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ ’اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں 6:108‘۔ مفسرین نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے مشرکین کے معبودوں کے علاوہ ان کے محترمین کو بھی اس حکم میں شامل کیا ہے۔

کیا صحیح مسلم میں درج یہ احادیث مبارکہ کبھی آپ کی نظر سے نہیں گزری ہیں؟

’قتیبہ بن سعید، لیث ابن ہاد، سعد بن ابراہیم، حمید بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں کوئی آدمی کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو اپنے باپ کو گالی دیتا ہے اور کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اپنی ماں کو گالی دیتا ہے‘۔

’قتیبہ بن سعید، علی بن حجر اسماعیل ابن جعفر علاء، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘۔

کیا وجہ ہے کہ کسی اختلاف رائے پر آپ دوسرے کو ’قادیانی‘، ’کافر‘، ’ملحد‘ کہنے سے شروع ہوتے ہیں اور پھر روانی میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جن الفاظ کو لکھنے سے کوئی بھی مہذب شخص قاصر ہے۔ اگر آپ کا مقصد یہ ہے کہ فریق مخالف آپ کے عقیدے کا احترام کرے، جبکہ وہ اس عقیدے کو نہیں مانتا ہے، تو پھر آپ کا شخصی تاثر ہی اسے آپ کی خاطر آپ کے عقیدے کا احترام کرنے یا اس پر کیچڑ اچھالنے پر مائل کرے گا۔ اگر آپ شیریں گفتاری سے کام لیں گے تو پھر ہی فریق مخالف آپ کی خاطر آپ کی رعایت کرے گا۔ لیکن اگر محفل ایسی ہو کہ جس میں بد گوئی کے علاوہ کچھ نہ ہو، تو اس محفل سے اٹھنے کا ہی حکم ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسے سلام کرو اور ترک کر دو۔

لیکن اگر آپ کا یہ گمان ہے کہ آپ کسی کو خوب برا بھلا کہہ کر اور اس کی ماں بہن ایک کر کے اسے اپنے موقف کا حامی بنا سکتے ہیں تو بہتر ہے کہ اپنے ارد گرد موجود افراد پر یہ تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ایسی باتیں سننے والے کے تاثرات اور جوابی ڈائلاگ کیا ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں تو یہ صریحاً احمقانہ طرز عمل ہے۔

عقائد کے معاملے میں سو اختلافات ہوں، مگر انداز گفتگو کے معاملے میں جاوید احمد غامدی صاحب کا رویہ قابل تقلید ہے۔ گستاخانہ سے گستاخانہ، مشرکانہ سے مشرکانہ سوال سن کر بھی ان کے ابرو پر بل نہیں پڑتے ہیں۔ وہ نہایت تحمل سے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ تشکیک کا شکار ہیں، ان کے سوالات کے اچھے انداز میں جواب دے کر ہی آپ ان کو بچا سکتے ہیں۔ اگر آپ ان کو سوالات کے جواب دیے بغیر ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کر دیں گے، تو پھر وہ منافق ہی بنیں گے۔

اگر آپ دین کے علمبردار بنتے ہیں تو آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ اپنے ایمان کے علاوہ اس شخص کے ایمان کے بھی ذمہ دار ہیں جس کو آپ کے الفاظ صراط مستقیم پر لا سکتے ہیں یا رد عمل کا شکار کر کے راہ راست سے ہٹا سکتے ہیں۔ کچھ بھِی لکھنے یا بولنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ کیا آپ کے الفاظ کسی کو جہنم کی طرف تو نہیں دھکیل رہے اور کیا روز قیامت آپ سے اس کی پرسش تو نہیں ہو گی؟

صحیح مسلم کی اس حدیث مبارک پر اختتام کرتا ہوں جس میں ان یہود کا ذکر ہے جنہوں نے رسول پاکؐ کو ’السام علیک اے ابو القاسم‘ کہا تھا، اس پر حضرت عائشہؓ غصے ہوئیں۔

’اسحاق بن ابراہیم، یعلی بن عبید اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کی بددعا کو جان لیا جو سلام کے ضمن میں تھی پھر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو برا بھلا کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ رک جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ بد زبانی اور بد گوئی کو پسند نہیں کرتا‘۔

آپ دشنام طرازی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کیا ہیں۔ اگر آپ مہذب انداز میں گفتگو کرنے کے اہل نہیں ہیں تو ایسے مکالمے سے احتراز کریں جس کو خدا اور رسولؐ خدا ناپسند کرتے ہیں۔

پہلا حصہ: آتش بدہن دین بیزاروں کے نام

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments