بازار حسن کا انسائیکلو پیڈیا حکیم الدین غوری اس چکر میں کیسے پڑا؟


” ایسا کرتے ہوئے تم نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ اوپر نگہت کے اہل خانہ بھی ہوں گے۔ “

” یہ میرا نہیں بلکہ نگہت کا مسئلہ تھا کیونکہ طوائف کبھی گاہک کو وہاں نہیں لے جاتی جہاں اسے مکمل آزادی میسر نہ ہو۔ کیونکہ وہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ پرائیویسی کے بغیر یہ کھیل کبھی لطف نہیں دیتا اور گاہک تب ہی پیسے دے گا جب وہ مطمئن ہو گا۔ نگہت نے دروازہ کھولا اور مجھے ڈرائنگ روم کی بجائے بیڈ روم میں لے گئی۔ میرے ہاتھ میں کھانے پینے کا سامان دیکھ کر اس نے ایک لڑکی کو آواز دی۔ وہ اس کی بیٹی تھی جس کی عمر 10 سال کے قریب ہو گی: ”بیٹی انکل کو سلام کرو۔ “

بچی نے اسلام کیا میں نے شفقت سے اسے قریب بلایا۔ وہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی، نگہت نے کھانے کا سامان اس کے حوالے کیا۔ بچی 2 منٹ بعد ہی سلیقے سے مرغ روسٹ پلیٹ میں ڈال کر ہمارے پاس لے آئی۔ نگہت نے کہا : ”جاؤ تم بھی کھالو اور بھائی کے ساتھ کھیلو۔ میں نے تمہارے انکل کے ساتھ کچھ کرنا ہے۔ “ بچی چلی گئی۔ اس کے اندار سے لگتا تھا کہ وہ اس قسم کے حالات کی عادی ہے۔ نگہت نے شراب کو بوتل کو للچائی نظروں سے دیکھا۔

وہ مکمل طور پر اپنے حواس میں تھی میں نے پوچھا تمہارے شوہر کے آنے کا کوئی امکان تو نہیں۔
” آ بھی گیا تو ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔ “

” کیا مطلب ہے؟ اسے علم ہے کہ تم۔ “
” حرام زادہ میرے ٹکڑوں پر پلتا ہے، میری ہی کمائی کھاتا ہے۔ “

” دیکھنا کہیں مروا نا دینا۔ “
” تم بے فکر رہو، پیو، کہو تو اسے بلا کر کہوں کہ ہمارے لئے کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔ “

میں نگہت کے اندر چھپے ہوئے کرب کو دیکھ کر تھوڑا سا دکھی ہوا۔ لیکن خاموش رہا۔ وہ پیتی رہی اور کھاتی رہی۔ دوپہر ڈھل رہی تھی۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ ہم ایک درمیانے درمیانے درجے کے کمرے میں کرسی پر بیٹھے شراب پیتے رہے دوران گفتگو پتہ چلا کہ اس کی یہ دوسری شادی ہے۔ پہلے شوہر سے دو بچے ہیں اور موجودہ شوہر رزاق بوڑھا بھی ہے اور مفلوک الحال بھی۔

” کیا ضرورت تھی ایسے شخص سے شادی کرنے کی؟ “
” جب قسمت خراب ہو، کوئی سہارا نہ ہو تو اس معاشرے میں تحفظ حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی کے ساتھ نکاح پڑھوانا ہی پڑ جاتا ہے۔ “

پھر اس پر دیوانگی طاری ہو گئی۔ میرے لئے ایسی عورت کو دیکھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ بس اللہ کی رحمت تھی کہ مجھ جیسے گناہ گار کو راہ راست نظر آ گئی۔ ہوا یہ کہ ایک دن شاہ عالمی کے نزدیک رات گئے ایک شخص شراب کے نشے میں دھت گندے نالے میں گر گیا اور رات بھر کسی کو اس کا پتہ نہ چل سکا۔ صبح کسی کی نظر پڑی۔ پولیس کو اطلاع دی گئی۔ کوئی اس کو نکالنے کے لئے تیار نہ تھا۔ آخر کار کارپوریشن کے خاکروب نے اس کو باہر نکالا۔

اسی دن میں نے شراب چھوڑ دی۔ رانی میری زندگی میں آنے والی آنے والی آخری عورت تھی۔ ایک رات اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک پولیس نے چھاپہ مارا۔ میں اور رانی چھت پر موجود تھا۔ نیچے کمروں میں 3 عورتیں اور 5 مرد رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ وہ سب گرفتار ہوئے۔ دو پولیس والے اوپر بھی آئے میں نے انہیں قریب بلا کر خاموشی سے ا ن کی جیب میں 5 ہزار روپے دیے۔ پہلے تو وہ بڑھکیں لگاتے رہے۔ جب میں نے کہا کہ ضمانت کے لئے 500 روپے بھی کافی ہوں گے تو وہ مان گئے۔

دونوں نے نیچے جا کر رپورٹ دی کہ چھت خالی ہے۔ رانی میری وجہ سے بچ گئی۔ پولیس کے ساتھ اخبار والے بھی تھے۔ اگلے روز اخبارات کے صفحہ اول پر فحاشی کے اڈے پر چھاپے کی خبر شائع ہوئی۔ میں اس روز بہت ڈرا کیونکہ دو دن بعد میری بہن کی شادی تھی۔ میں نے سوچا اگر پکڑا جاتا تو کیا حال بنتا؟ بس ایک خیال نے زندگی بدل ڈالی۔ اب مجھے ہر قسم کی بری عادت سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں۔ میری زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی ہے اور میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے راہ راست جیسی نعمت سے نواز۔

اتنا عرصہ عیاشی کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر راحت اور سکون مل سکتا ہے تو وہ محبت کرنے والی بیوی کی رفاقت میں مل سکتا ہے ورنہ زندگی میں دھوکوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہی طوائفیں ہیں وہی شراب ہے، وہی چکلے ہیں، وہی کھسرے ہیں، وہی شہر ہے اور وہی ہم ہیں لیکن زندگی کی ڈگر وہ نہیں جو کبھی پہلے تھی۔ “
کتاب“ عورت اور بازار “سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4