رودھالی


\"mustafaکبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم سب کالم نگار \’ بلاگ نویس اورتجزیہ کار پیشہ ور رودھالی بن چکے ہیں جن کا کام روز گرنے والی کسی نہ کسی خبر کی لاش پر گریہ کرنا ہی رہ گیا ہے. کبھی ہم مولانا شیرانی کی ہلکے پھلکے تشدد پر بین کرتے ہیں ابھی ہمارا نالہ عرش تک پہنچا ہی نہیں ہوتا کہ خواجہ آصف ٹریکٹر ٹرالی کی لاش لے کر پہنچ جاتے ہیں اور ہم سب پچھلی لاش کو لاوارث چھوڑ کر ٹریکٹر کی بتی کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں دوڑتے دوڑتے راستے میں ہمیں کچھ لڑکیوں کی جلی لاشیں نظر آتی ہیں تو ہم خواجہ آصف کا پلہ چھوڑ کر ان لڑکیوں پر رونے لگتے ہیں. ابھی یہ جلتے بدن ٹھنڈے ہی نہیں ہوۓ ہوتے کہ ایک صاحب دستار شلوار کا قضیہ کھڑا کر دیتے ہیں اور ہم کوئلوں پر چٹختی ہڈیاں چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے اپنی اپنی شلواریں سنبھالتے اور آہ و زاری کرنےلگتے ہیں. آجکل ہم حمزہ علی عباسی کی طرف سے عطیہ کی گئی لاش پر ماتم کر رہے ہیں اور یہ ماتم تب تک جاری رہے گا جب تک کسی نئی خبر کی لاش نہیں آ جاتی جو کہ امید ہے ایک دو دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں گر جانی ہے. پچھلے ایک مہینے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اگر میری بات غلط نکلے تو جو سنیٹر حمد اللہ کی سزا وہی میری.

کیا ہم نے گریہ کرنے کے ساتھ ساتھ مولانا شیرانی \’ خواجہ آصف \’ سینیٹر حمد اللہ اور بیٹیوں کو آگ لگانے والوں کو گھر تک پہنچایا ہے. جی نہیں …. الحمدللہ شیرانی صاحب آج بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی چیرمینی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں خواجہ آصف وزارت دفاع کے مزے لے رہے ہیں بیٹیوں کو جلانے والے وکیلوں کے مشورے سے ضمانت کے قریب ہیں اور سینیٹر صاحب شلوار اتروائی کیس میں ضمانت کرا چکے ہیں. ایسا کیوں ہےکہ ہم اپنے اپنے کاغذی لشکر لے کر جو جنگ لڑنے جاتے ہیں اس میں فتح اور شکست کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی پہلی چھوڑ دوسری لڑائی میں کود پڑتے ہیں. دوسری میں دشمن کے پاؤں اکھڑنے ہی والے ہوتے ہیں کہ ہمارے پیروں میں خارش ہوتی ہے اور ہم اس لڑائی کوبےنتیجہ چھوڑ کر تیسری میں رجز پڑھنے پہنچ جاتے ہیں

دو دن پہلے حمزہ عباسی نے اپنے پروگرام میں قادیانیوں کے دائرہ اسلام سے بزور پارلیمنٹ خروج پر ایک سوال اٹھا کر جہاں خود کو بین کرایا وہیں ہم رودھالیوں کو بھی بین کرنے کا موقع فراہم کیا ہے. بلکہ غیرت برگیڈ کو بھی متحرک کر دیا ہے. ایک اوکاڑوی مولانا نے تو خالص لکھنوی لب و لہجے میں حمزہ میاں کو قتل کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے. میں کوئی سینئر جغادری نوحہ گر نہیں ہوں ابھی تو نوحہ گری کے داؤ پیچ سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے یہ حق ضرور حاصل ہے کہ میں سینہ کوبی سے پہلے حمزہ میاں سے ایک دو سوال کر سکوں تا کہ لاش کے شایان شان نوحہ لکھوں.

مجھے صرف اتنا پوچھنا ہے کہ ٹیلی ویژن پر ایک براہ راست پروگرام میں لاکھوں دیکھنے والوں کے سامنے یہ سوال اٹھانے سے پہلےکسی ذاتی محفل میں آپ نے اپنی جاندار آواز میں اپنے لیڈر عمران خان سے کبھی یہ سوال پوچھا ہے.. ان کی کیا رائے ہے قادیانیوں کے بارے میں. کیا وہ آپ کے ہمنوا ہیں اگر ہیں تو کسی کنٹینر پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ \” اوئے اوکاڑوی اوئے جھنگوی اوئے قادری اوئے پاکستانیو قادیانی مسلمان نہیں مگر انسان ضرور ہیں اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے \”

یہی سوال فخر ایشیا کے جیالوں سے بھی ہے کہ جب ان کا لیڈر سیاسی مولویوں کے کہنے پر یہ عظیم کارنامہ سرانجام دے رہا تھا تو ریاست ہو گی ماں کے جیسی کلام سنانے والے اس وقت کیوں چپ تھے. کیا بھٹو صاحب کو ادراک نہیں تھا کہ وہ کس فتنے کو پارلیمنٹ میں گھسیٹ لاۓ ہیں. یقیناً وہ جانتے تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وزارت خارجہ کی جس کرسی پر وہ کافی عرصہ بیٹھے رہے ہیں اس کے پائے سر ظفر اللہ خان نے گھڑے تھے. لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے وہ جن مولویوں کے ساتھ مل کر اس دوزخ کا دروازہ کھول رہے ہیں وہی مولوی ان کے لئے پھانسی گھاٹ کا دروازہ کھلنے پر خاموش رہیں گے.

فولادی شیر کے اردگرد بھی وھی متوالے کھڑے ہیں جن کے گھروں میں لشکروں کے لشکر اور جیشوں کے جیش پلتے ہیں. جن کے صوبے کے دارالحکومت لاہور کی مارکیٹوں میں \”قادیانیوں کا داخلہ بند ہے\” کے بینر پھڑپھڑا رہے ہیں.

مجھے حمزہ میاں کے سوال سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ کسی نے نوحہ گری کی بجائے جرات تو کی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حمزہ نے ٹیلی ویژن کے ذریعے اس عوام سے کیا ہے جن کی اکثریت انہی مولویوں کے ساتھ مل کر ہیلی کاپٹر کو اپنے چپلوں کی طاقت سے بھگا دیتی ہے. حمزہ نے سوال اٹھایا، پیمرا نے ڈنڈا اٹھایا، چینل نے سر جھکایا اور پروگرام بند. الله الله خیر سلا …

لہٰذا گزارش یہ ہے میرے پیارے افضل کہ تمہیں اور تم جیسے دوسرے نوجوانوں کو جن کی رسائی اپنی اپنی جماعت کے لیڈر تک ہے وہاں یہ سوال رکھنا چاہئیے تاکہ جس دوزخ کا دروازہ پرانے سیاسی جلاد کھول گئے ہیں اسے آج کل کے سیاستدان مل کر بند کریں. ٹیلی ویژن پر سوال کرو گے تو پروگرام ہی بند ہو جائے گا۔ تم تو پروگرام بند کر کے کسی فلم یا ڈرامے میں کام کر لو گے، وہ قادیانی کہاں جائے گا جس کو تمہاری طرف داری کے بعد جان بچانے کے لیے اب کوئی نئی سرنگ کھودنی پڑے گی۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments