درد این آر او کا ہے یا اٹھارہویں ترمیم کا؟


ہمارے ملک کی سیاست میں پکڑو، مارو، جانے نہ پائے کی سوچ کا عنصر شامل رہا ہے۔ اس سوچ نے معاشرے میں عدم برداشت کے رویوں کو پروان چڑھایا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارا پیارا وطن جو ایک جمہوریت پسند سیاستدان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا بے شک اس ملک کی بنیاد میں ان گنت شہیدوں کا خون اور قربانیاں شامل ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ پے در پے آمریتوں کے بعد جب بھی جمہوریت بحال ہوئی آگ و خون کے دریا عبور کرکے بحال ہوئی۔

اکتوبر 1999 ء میں مشرف آمریت کے خلاف یہ پہلو زیر بحث رہا کہ اس بار جب بھی جمہوریت بحال ہوگی کیا پرامن طریقے سے بحال ہوگی؟ اس بحث کی بنیاد یہ تھی کہ معزول وزیراعظم نواز شریف مشرف کی آمریت کی تاب نہ لا کر خاندان سمیت جلا وطن ہوگئے۔ عدالت عظمی نے جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کو نہ صرف تحفظ دیا بلکہ انہیں آئین میں من مانی ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا جو خود عدالت عظمیٰ کے پاس بھی نہیں تھا۔ فوجی آمر جنرل مشرف وردی سمیت ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔

2002 ء میں عام انتخابات ہوئے تو جنرل مشرف نے من پسند حکومت بنائی۔ تاہم وہ عالمی دنیا میں جمہوری حکومت قرار نہ پا سکی۔ اگرچہ نواز شریف کے دور میں خودکش حملوں کی شروعات کراچی کے ایک اخبار پر حملے سے ہوئی تھی مگر نائن الیون کے بعد بدلتے ہوئے عالمی منظر نے ہمارے ملک کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دیں۔ نام نہاد افغان جہاد کے بعد ایک بار پھر وہاں بارود کی آگ بھڑکی جس کے شعلوں نے ہمارے پیارے وطن کو بھی آغوش میں لے لیا۔

وہ جو جنرل ضیاء کے دور میں ہمارے پیارے اور معزز مہمان تھے ٹرائبل ایریاز سے محب وطن لوگوں کا صفایا کرنے کے بعد ان علاقوں پر قابض ہوگئے۔ یہاں تک انہوں نے سوات میں اپنے خونی پنجے گاڑ کر وہاں سے قومی پرچم اتار دیا۔ فاٹا بلکہ کے پی میں بھڑکنے والی بارودکی آگ کے شعلوں نے وفاق کی تمام اکائیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت ملک کو ضرورت صرف ایک بہادر جمہوری لیڈر کی تھی۔ پرویز مشرف ایک فوجی آمر تھے۔ آمریت خود ایک دہشت ہوتی ہے اور کوئی دہشت، دہشتگردی کو شکست نہیں دے سکتی۔

اس وقت این آر او ایک ضرورت بن گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا مقصد یہ تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ جنرل پرویز مشرف فوجی عہدہ چھوڑ دیں اور بیرون ملک مقیم سیاستدانوں کو محفوظ راستہ دیا جائے تاکہ وہ آزادی سے 2007 ء کے انتخابات میں حصہ لیں۔ تاکہ ملک کا نظم و نسق پرامن طریقے سے جمہوریت کی طرف گامزن ہو۔ محترمہ بینظیربھٹو شہید نے ہرگز اس بات کا اصرار نہیں کیا تھا کہ جرائم اور کرپشن میں ملوث عناصر کے خلاف مقدمے ختمکیے جائیں۔ کیونکہ نام نہاد سوئس اکاؤنٹس اور ایس جی ایس کوٹکنا کیس میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری کے خلاف حکومت پاکستان نواز حکومت اور اس کے بعد مشرف رجیم الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

عظیم المیہ یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم تمام سیاستدانوں کو وطن واپسی اور آزادانہ طور پر پر انتخابات 2007 ء کے انتخابات میں حصہ لینے کا اصرار کرنے والی صرف محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو محفوظ راستہ نہیں ملا۔ 18 اکتوبر 2007 ء کو عوام کی مقبول لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی ہوتی ہے، ریکارڈ گواہی دے گا کہ ان کے خلاف ڈیل کرنے کے حوالے سے ٹاک شوز کرائے گئے۔ مضمون اور خبریں شائع کرائی گئیں۔ کوئی پھولی ہوئی سانسوں سے عدالت عظمیٰ گیا۔ این آر او اور ڈیل کا شور برقرار تھا کہ کارساز کے مقام پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے کارواں جس میں 30 لاکھ عوام شریک تھے پر خوفناک حملہ ہوا، 170 کے قریب جیالے شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے جو بم حملے بعد اپنی لیڈر کی حفاظت کے لئے ڈھال بن گئے۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس قدر خطرناک حملے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حفاظت کے لئے غیرمعمولی اقدام اٹھائے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید چاروں صوبوں کے شہر شہر گئیں۔ ان کی حفاظت صرف پیپلزپارٹی کے جیالوں جانثاروں نے کی۔ ریاست جس پر پرویز مشرف کی حکمرانی تھی اپنی ذمہ داری سے غفلت کا مظاہرہ کرتی رہی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جنرل مشرف کے ہاتھوں زیرعتاب آنے والے افتخار چوہدری اور ان کے حامیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا حالانکہ انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فائدہ صرف اور صرف پرویز مشرف کو ہوگا۔

نومبر کو جنرل پرویز مشرف نے دوربارہ ایمرجنسی نافذ کی تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید جو اپنی والدہ کی تیمارداری اور بچوں سے ملنے دبئی گئی ہوئی تھیں پہلی پرواز سے وطن واپس تشریف لائیں۔ ان کی وطن واپسی جنرل مشرف کی مزاحمت کا اعلان تھا۔ ان دنوں میڈیا ہاؤسز پر قدغن لگائی گئی تھی، سپریم کورٹ کے معزز جج نظربند تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے پرویز مشرف کی طرف سے نافذ کی گئی ایمرجنسی کے خلاف احتجاج کی کال دی۔

افسوس کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اکیلے ہر جنگ لڑی۔ یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو کھوسہ ہاؤس لاہور اور پھر زرداری ہاؤس اسلام آباد میں نظربند کر دیا گیا۔ ان کی رہائشگاہ کے باہر خاردار تاریں بچھائیں گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور ایف سی اہلکار دیوار کی طرح کھڑے کیے گئے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو گھر سے باہر نکلنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں فورس دستیاب تھی مگر ان کی حفاظت کے لئے چند اہلکار ہی تعینات کیے گئے۔

27 دسمبر کو انہیں سکیورٹی دینے سے گریز کا مقصد دہشتگردوں کی سہولت کاری تھی تاکہ وہ بلا روک ٹوک محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو نشانہ بنا سکیں۔ 27 دسمبر 2007 ء کی شام لیاقت باغ کے باہر سکیورٹی نہ ہونے کے باعث دہشتگردوں نے سرعام محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو نشانہ بنایا۔ کیا یہ تھا وہ این آر او جس کا ماتم تاحال جاری ہے؟

مان لیا کہ این آر أ غلط تھا اور جرم تھا مگر سوال یہ ہے کہ آئین شکن شخص کی تابعداری آئین شکن شخص کو تحفظ اور انہیں آئین سے کھلواڑ کرنے کی سند دینے کے عمل کو آخر کیا معنی دیے جائیں؟ این آر او کے درد کے مرض میں شکار دوستوں کو رنج این آر او کا کم اٹھارہویں ترمیم کا زیادہ ہے مگر وہ نہ تو اف کہہ سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).