طالبان کی پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت


ماسکو کانفرنس

افغانستان کی امن کونسل کے ارکان نے جمعے کے روز ماسکو میں ایک کثیر ملکی کانفرنس کے دوران طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہو جس سے افغانستان کے تنازعے کے سیاسی حل کی امید روشن ہو گئی ہے۔

روسی خبررساں ادارے آر آئی اے کے مطابق امن کونسل کے ترجمان احسان طاہری نے کہا: ‘ہم نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے موضوع پر بات کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے جگہ اور وقت مقرر کریں۔’

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی طالبان کے ساتھ قطر میں ایک الگ ملاقات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

روسی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ‘ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ سیاسی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور اس بات کی ضرورت ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملک اور علاقائی شراکت دار بھی فعال طریقے سے اس میں حصہ لیں۔’

مغربی ملک اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کی حکومت روس میں ہونے والے اس اجلاس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس عمل کی قیادت افغانستان کو کرنی چاہیے۔

طالبان کے پانچ رکنی وفد کے علاوہ اس اجلاس میں پاکستان، انڈیا، چین، امریکہ، قطر اور دوسرے ملکوں کے علاوہ کئی اہم افغان سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں سے بعض کے اشرف غنی کی حکومت سے اختلافات چل رہے ہیں۔

طالبان نے اس ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس کانفرنس میں کسی مخصوص دھڑے سے ملاقات نہیں کر رہے بلکہ ‘اس میں افغانستان کے مسئلے کے حل اور امریکی موجودگی کو ختم کرنے پر جامع مذاکرات ہوں گے۔

مذاکرات روس میں کیوں ہو رہے ہیں؟

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر نے بی بی سی کو بتایا کہ روس اس خطے کا اہم ملک ہے اور افغانستان کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات اور مفادات رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘امریکہ نے ان مذاکرات کے روس میں انعقاد پر اعتراض کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ اس پر سے توجہ ہٹ جائے۔’

انھوں نے کہا کہ روس نے خطے کے اہم ملکوں اور مختلف دھڑوں کو اکٹھا کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے جس کے اچھے نتائج نکلنے کی امید ہے۔

ماسکو کانفرنس

اس کے علاوہ روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ اور دوسرے شدت پسند دھڑوں کی بلا روک ٹوک سرگرمیوں سے شدت پسندی اس کی سابق ریاستوں اور بالآخر روسی سرزمین تک پھیل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس افغانستان میں امن لانے کا متمنی ہے۔

طالبان کا امن مذاکرات کے بارے میں کیا موقف ہے؟

اشرف غنی نے اس سال کے شروع میں طالبان سے غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کی تھی، لیکن طالبان نے اس سے انکار کر دیا تھا۔

ایاز وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اس لیے وہ ان سے براہِ راست بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ اصل کھلاڑی امریکہ سے بات کی جائے اور اسی ضمن میں ان کی قطر میں امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد سے مذاکرات طے ہیں۔

ماسکو میں موجود طالبان کے نمائندے شیر محمد عباس ستانگزئی نے کہا کہ افغانستان میں بدامنی کی وجہ طالبان نہیں بلکہ غیر ملکی قوتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کے دور میں افغانستان سے منشیات کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا لیکن اب یہ کاروبار دوبارہ عروج پر ہے۔

انڈیا اس اجلاس میں کیوں موجود ہے؟

انڈیا کا باضابطہ سرکاری وفد کانفرنس میں موجود نہیں ہے، البتہ اس کے اہلکار ’غیر سرکاری‘ حیثیت سے شریک ہیں۔

ایاز وزیر نے بتایا کہ اس اجلاس میں خطے کے تمام اہم ملکوں کو دعوت دی گئی ہے اور ‘انڈیا نہ صرف خطے کا اہم ملک ہے بلکہ اس کے افغان حکومت کے ساتھ بےحد گہرے تعلقات ہیں اور اس نے وہاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ان کی موجودگی بنتی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس اجلاس میں انڈیا کی موجودگی پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے بلکہ دونوں ملکوں کو باقی مسائل بھی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دینا چاہیے۔

نتائج کی کتنی امید رکھنی چاہیے؟

روسی وزیرِ خارجہ سرگے لاوروف نے کہا ہے کہ اجلاس کا مقصد ‘براہِ راست مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس اجلاس کے دوران ہونے والی سنجیدہ اور تعمیری بات چیت سے افغانوں کی امیدوں کو جواز ملے گا اور یہ مذاکرات افغان تاریخ میں نیا موڑ ثابت ہوں گے۔’

تاہم ایاز وزیر نے کہا کہ ‘ہمیں اس کانفرنس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں، کیونکہ یہ ایک لمبے سفر کا پہلا قدم ہے جو آگے چل کر زیادہ بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp