بے غیرت خاموش ہیں


من میں درد کا سیل رواں بہنے کو ہو۔ وطن کی ہواﺅں میں چیختی آوازوں سے نشیمن کے تنکے سلگ اٹھنے کوہوں توایسے میں کیا کیجیے؟ وقار ملک کو فون کیجیے کہ فطرت کا نگار خانہ کھول کر جینے کی امید دلائے گا۔ فطرت اورمٹی کی محبت و نکہت ہر انسان میں کہیں نہ کہیں پائی جاتی ہے وقار مگر شمال کی محبت کا استعارہ ہے۔ وقار کہے گا، ’چلیں اسلام آباد کے روز گارڈن کے کسی ویران بینچ پر گل وخوشبو کی پناہ لیتے ہیں‘۔ اب ہلکی بارش ہے۔ ہواﺅں کا رقص ہے۔ شام کی آغوش ہے۔ فضا میں خمار ہے۔ سیگریٹ کا دھواں ہے۔ سنجیدگی و مزاح کی جگل بندیاں ہیں۔ کافی کی تلخی زبان سے لپٹی ہوئی ہے۔ گرد و پیش سے بے نیازی ہے اور دور مارگلہ کے دامن میں فیصل مسجد کے چار بھیگتے مینار ہیں۔ وقت تھم سا گیا۔ خلا میں تکتے تکتے وقار دھیرے سے بولتا ہے۔ ’دیوسائی کے میدانوں میں ہزاروں رنگوں کے لاکھوں خودرو پھول کھلتے ہیں‘۔ سینے میں درد کی ایک ٹھیس اٹھتی ہے۔ بے اختیار گاﺅں کی یاد گدگداتی ہے۔ وہ بنجر زمین جس کا سینہ کبھی گلوں سے گل برگ ہوتا تھا۔ وہی گل رعنا ، گل خنداں، گل لالہ۔ جب پتھریلی زمین سرخ چادر اوڑھ لیتی اورشام ڈھلتے ہی گاﺅں کا چرواہا بانسری میں سر اٹھاتا تو ماﺅں کی لوریاں تھم جاتیں۔ وقار کو کیسے بتاﺅں کہ دیوسائی کے ہزاروں رنگوں کے لاکھوں خودرو پھولوں سے زیادہ خوبصورت تھی وہ زمین جس کے سینکڑوں پتھر اور ہزاروں کانٹوں نے ان پیروں پر درد کی تصویر نقش کی ہے۔ اس درد میں وہی لذت ہے جو محبت کی ٹھیس میں ہے۔ وہی چیخ ہے جو ستمبر کی شاموں میں چنار کے جھڑے پتوں پر پاﺅں پڑنے سے اٹھتی ہے۔ وقار اس دیس کے ویرانی کی داستان پوچھے گا تو بتانا پڑے گا اور مجھ میں بتانے کا حوصلہ نہیں ہے۔ مجھے گاﺅں کا وہ نیم پاگل دینو یاد آتا ہے۔ دینو کہتا تھا۔ بانسری حرام ہوگئی اور بے غیرت خاموش ہیں۔

 ایک منظر بدلتا ہے۔ فاطمہ جناح پارک کی گھاس پر ننگے پیر چلتے جب شبنم کے پھوار کی ٹھنڈک من میں اترتی ہے اور سامنے مارگلہ کے پہاڑ پر سورج کی پہلی کرن پڑتی ہے تو وقار ملک درد سے پکار اٹھتا ہے۔ ’جنت کا سورج تو فیری میڈوز میں اگتا ہے۔ ٹھنڈی گھاس کے میدان میں لگے خیمے سے جب انسان نکلتا ہے تو سامنے نانگا پربت ایک ہندو بیوہ کی طرح برف کی سفید چادر اوڑھے پرنام کرتا ہے‘۔ میں کیسے وقار ملک کو بتاﺅں کہ مئی کے آتے ہی افغانستان سے ہمارے دیس میں بنجاروں کے قافلے آتے اور گاﺅں کے سامنے خیمہ بستیاں آباد کرتے۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جب ڈھول کی آواز آتی تو سارے بچے بھاگ کر خیمہ بستی کے سامنے پہنچ جاتے۔ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں لمبی زلفوں والے الہڑ جوان یوں رقص کرتے جسے سارس اپنے پنکھ پھیلائے جھیل کے کنارے ناچتے ہیں۔ خیمہ بستی کے دوسری جانب دریا کی تھاپ پر حیا میں لپٹی جوانیاں یوں رقص کناں ہوتیں جسے چکوروں کا غول چاندنی راتوں میں بے خود ناچتا ہے۔ میری جنت تو اس چھوٹی پہاڑی کے دامن میں ویران ہو گئی۔ بنجارے اب نہیں آتے۔ اب صرف دینو کی آواز آتی ہے۔ سارے بے غیرت خاموش ہیں۔

ایک منظر اور بدلتا ہے۔ اسلام آباد کے سید پور گاﺅں میں ایک ویران مندر ہے۔ مندر کے جس تخت پر دیوتاﺅں کی مورتی کے سامنے انسان کی بلی چڑھائی جاتی تھی وہ تخت ویران ہے مگر اس مندر میں لگے برگد کے پرانے پیڑ کی ٹہنیوں پرایک پرندہ آشیانہ بنا رہا ہے ۔ آس پاس کے ہوٹلوں سے آتی ہنسی کی آوازیں زندگی کی جیت کی علامت ہیں۔ ادھر مگر مندر کی شکستہ سڑھیوں پر دیوتاﺅں کی شکست کے نوحے درج ہیں۔ ان شکستہ سیڑھیوں پر بیٹھے مارگلہ کی پہاڑیوں سے بہتی آبشار آپ کے کانوں میں جلترنگ بجاتی ہے تو وقار کہتا ہے۔ ’بھائی! برسات کے موسم میں جب ابر باراں مادوپور کو جل تھل بنا دے تو ہم منتوکا آبشار کی دھن سنیں گے ۔ تب رگوں میں شہد کے دریا بہہ اٹھیں گے‘۔ میں کیسے وقار کو بتاﺅں کہ شام ڈھلے ہاتھوں میں مٹکے تھامے میری دیس کی بیٹیاں جب پنگھٹ پر پانی بھرنے آتیں تو چوڑیوں کی کھنک، پانی کا جلترنگ اور کھلکھلاتی ہنسی کی دھنوں سے منتوکا آبشار بھی سلگ اٹھتا۔ اب مگر پنگھٹ ویران ہے اور پنگھٹ پر دینو بیٹھا زور زور سے چلاتا ہے۔ پنگھٹ ویران ہے اور بے غیرت خاموش ہیں۔

گلزار نے لکھا تھا۔ ’مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے۔ اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے۔ جب کوئی دھاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا۔ پھر سے باندھ کے اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں۔ آگے بننے لگتے ہو۔ تیرے اس تانے میں لیکن۔ اک بھی گانٹھ گرہ بندل کی ۔ دیکھ نہیں سکتا ہے کوئی۔ میں نے تو اک بار بنا تھا۔ ایک ہی رشتہ۔ لیکن اس کی ساری گرہیں صاف نظر آتی ہیں میرے یار جولاہے‘۔ میں جولاہا نہیں ہوں۔ میں سانسوں کے تانے بانے سے زندگی کا کپڑا بننے کا گر نہیں جانتا۔ ہاں مگر لفظوں سے ایک تانا بن سکتا ہوں۔ اس ورق پر اپنے دیس کی ایک خوبصورت تصویربنا سکتا ہوں۔ جب درختوں کی لمبی شاخوں پر ہرنیاں جھولتی تھیں۔ جب ابئی کی لوریاں محبت کا مذہب سکھاتی تھیں۔ جب حجروں میں بوڑھے رحمان کی غزل چھڑتے۔ جب بانڈوں میں شپون (چرواہا) چاندنی رات میں رباب بجا کر دل موہ لیتا تھا۔ مگر اس تانے کی بندل میں کچھ گانٹھ، گرہیں صاف نظر آتی ہیں۔ ان گرہوں میں کچھ مقدس نام لپٹے ہیں۔ یہ گرہیں کھلیں گی تو معلوم ہو گا کہ تقدس کے نام پر کس نے رباب کے تار توڑے۔ کس نے پنگھٹ کو ویران کیا۔ کس نے شاخوں سے جھولے اتارے۔ کس نے چرواہے کی بانسری کا حلق گھونٹ دیا۔ کس نے رحمان کی غزل چھین لی۔ کس نے سارسوں کے رقص کا دائرہ توڑا۔

وقار ! یہ گرہیں کھلیں گی تو شور اٹھے گا۔ اور شور اٹھے گا تو چیختی آوازوں سے نشیمن سلگ اٹھے گا۔ دیکھو میں نے کاغذ پر الفاظ سے کیسی گڈ مڈ سی تصویر بنا دی۔ میں اس تصویر کے رنگ نکھار کر گرہیں کھولوں گا تومیری آواز پر پہرہ لگ جائے گا۔ میرے دیس کی مائیں وطن کی بربادی پر کچھ نوحے گاتی ہیں مگر میں تمہیں وہ نوحے بھی نہیں سنا سکتا کیونکہ ان نوحوں میں کچھ نام آتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ وہ نوحےW. H. Auden  کی نظم ہے۔ ۔ ’ گھڑیاں روک دو۔ بھونکنے والوں کتوں خاموش کرا دو۔ ستاروں کی اب ضرورت نہیں رہی۔ چاند کو مقید کر دو۔ سورج توڑ دو۔ سمندر بہا دو۔ تابوت باہر نکالو۔ سوگواروں کو بلاﺅ۔ آسمان پر بے توجہی سے لکھو کہ وہ مر چکا ہے۔ میں سوچتا تھا محبت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ میں غلط تھا‘۔ میں بھی سوچتا تھا محبت ہمیشہ زندہ رہے گی مگر دل فگار ہوا اور آتما گھایل۔

 تم جانتے ہو میرے گاﺅں میں ایک رسم تھی۔ عید کی صبح سارے نمازی ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دیتے تھے۔ اب وہ رسم حرام ہو گئی ہے۔ میں سال عید پر گاﺅں جاﺅں گا تو کسی سے گلے نہیں مل سکوں گا۔ عید کی شام گاﺅں کے سارے جوان ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے تھے۔ اب ڈھول حرام ہے۔ اب عید کی شام گاﺅں کے میدان میں کچھ نوجوان گلے میں کلاشنکوف ڈالے سرگوشیوں میں مصروف ہوں گے۔ میں قریب جاﺅں گا تو سب کے چہروں پر ناگواری کے اثرات ابھریں گے۔ میں تھوڑی دیر خاموش رہوں گا تو کہیں سے دینو  نمودار ہو جائے گا اور زور زور سے چلائے گا۔ ڈھول حرام ہے۔ بندوق حلال ہے۔ اور بے غیرت خاموش ہیں۔

مجھے یاد ہے تم نے ایک بار لکھا تھا، ’بہتر نہیں ہے کہ یہ دنیا غیرت مندوں کے حوالے کر دی جائے اور ہم بے غیرت کوئی اور دنیا بسا ئیں‘۔ کئی برس ہو گئے دینو کو چلاتے ہوئے کہ بے غیرت خاموش ہیں۔ دینو چاہتا ہے کہ میں گرہیں کھول دوں اور مجھ میں گرہیں کھولنے کی غیرت نہیں ہے۔ کتنی بار سوچا کہ دینو کو بتا دوں کہ ہر خاموشی جرم نہیں ہوتی ۔ کچھ خاموشیاں جبر ہوتی ہیں مگر میں بتا نہیں سکوں گا۔

وقار ملک! تم ایک بلتی عورت کے مرید اور بالکے ہو جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کی ستونوں سے مس کرتی تھی اور مرشد پکار اٹھتا تھا، ’ اجڑے گھر آباد ہوں یا رب، اجڑے گھر آباد‘۔ میں وہ بیمار بچہ ہوں۔ میں نے دسیوں خانقاہوں کی ستونوں سے اپنے گالوں کو مس کیا۔ میں نے سینکڑوں مسجدوں کی مٹی پر اپنا ماتھا رگڑا مگر میرے ایمان کی گواہی قبول نہ ہوئی۔ میرا دیس اب سرخ لباس میں ملبوس سہاگ رات کی بیوہ دلہن ہے اور میں خاموش ہوں۔ اب دم گھٹتا ہے اس جبر میں۔ اگر بے غیرتوں کی دنیا بس گئی ہو تو خدارا مجھے بے غیرتوں کی دنیا میں بساﺅ۔ یہاں کے تو بے غیرت بھی خاموش ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments