ڈسِ ایبل یا اسپیشلی ایبلڈ


پیر کا دن ہمیشہ سے مجھے زہر لگتا تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ان سب میں ایک خصوصی وجہ ایک گونگا فقیر تھا جو پیر کو گلی میں بھیک مانگنے آتا تھا۔ کوفت سے بھرپور پیر کے دن اس گونگے فقیر کی۔ ۔ اوں آں کی آواز سن کر مذید الجھن پیدا ہوتی تھی۔ مجھے سو فیصد اس بات کا یقین تھا کہ وہ گونگا بننے کی اداکاری کرتا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بناکر پیسے بٹورتا ہے۔ مگر بادل نخواستہ مجھے روز اس کا سامنا کر کے آگے یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑتا پر آج کا دن تو اہم تھا۔ یونیورسٹی میں آج دوستوں نے خصوصی افراد کے سینٹر جانے کا پلان بنایا۔ سو سر جھٹک کر میں نے اپنی راہ لی

چھٹی کے کے بعد اوبر کی آرام دہ سواری اور اے سی کی خنکی میں بیٹھ کر کراچی کے علاقے صدر کی تنگ گلیوں سے گزرنا بھی ایک عجیب مرحلہ تھا۔ صدر کا رش اور شور کسی بھی جاندار کو کوفت میں مبتلا کر دے۔ اس سے پہلے میں صرف شاپنگ کی غرض سے صدر گئی تھی، دنیا جہاں کی کم و بیش ہر شے میسر آجانے والی اس مارکیٹ کے اختتام پر جہاں ہماری اوبر رکی ایک نیا جہان آباد تھا۔

ڈس ایبلڈ ویلفئراسوسی ایشن۔

جس سہیلی کے توسط سے ہم اس ادارے گئے تھے وہ ادارے کے بانی اور سربراہ جمشید رئیس سے مسلسل رابطے میں تھی۔ گلی میں داخل ہوتے ہی چمکیلے سلور رنگ کا ایک بڑا گیٹ ادھ کھلا نظر آیا۔ دروازے کا رنگ دیکھ کر ایک عجیب سا تجسس دل میں بیدار ہوا کہ اندر کیا ہوگا۔ اسی کشمکش میں ہم چار سہیلیاں ادھ کھلے دروازے سے قطار بنا کر اندر داخل ہوگئیں۔

جمشید صاحب جو ہمارے منتظر تھے ان کو دیکھ کر میں ششدر رہ گئی۔ جس زندہ دلی سے میری سہیلی ان سے فون پہ بات کر رہی تھی، یک طرفہ گفتگو سن کر میرے وہم و گمان میں بھی جمشید صاحب کووہیل چئیر پہ دیکھنا حیرت کا جھٹکا لگنے کے برابر تھا۔ ان کی مسکراہٹ دیکھ کر میں کچھ لمحوں پہلے ہونے والی اپنی کوفت پر خود کو کوس رہی تھی۔ کبھی کبھی ہمیں جو چیزیں معمولی لگتی ہیں وہ دراصل کسی کے لیے کتنی اہم ہوسکتی ہیں۔

جمشید صاحب بہت تپاک سے ہم سے ملے۔ وہ ایک نسبتا چھوٹی اور ہاتھ سے چلانے والی وہیل چئیر پہ تھے۔ بائیں طرف ایک چھوٹے کمرے میں وہ ہمیں ادارے کا دورہ کرانے کی غرٖٖض سے لے گئے۔ کمرے میں تین کمپیوٹرز ورکنگ ڈیسک پہ تھے۔ دو لوگ مختلف قسم کی وہیل چئیرز پہ کام میں مصروف تھے۔

ایک شخص صرف پاؤں سے معذور تھا اور مینوئل وہیل چیئر پہ تھا۔ جبکہ دوسرا شخص ایلیکٹرانک وہیل چئیر پہ تھا کیونکہ وہ ہاتھ اور پاؤں دونوں سے معذور تھا۔ میرے لئے سب سے زیادہ اچھنبے کی بات یہ تھی کہ یہ دوسرا شخص موٹیویشنل اسپیکر تھا۔ اول تو مجھے اس بات پہ ہر گز یقین نہیں آیا۔ لیکن دورہ کرنے کے بعد جب ہمیں بریفنگ دیتے وقت اس نے بولنا شروع کیا تو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔

ادارے کا دورہ کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ جسمانی معذور افراد کی مختلف ضروریات اور روزمرہ معمولات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مختلف قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ معذور افراد کی نگہداشت، وہیل چیئر سے بستر پر منتقلی، خواتین اسٹاف جو خواتین کے مسائل حل کر سکیں اور مرد اسٹاف مرد حضرات کا خیال رکھنے کہ لیے غرض یہ کہ کسی پہلو سے کوئی کمی رہنے نہیں دی گئی تھی۔ نامکمل سمجھے جانے والے ان افراد کے لئے ایک مکمل دنیا آباد کی گئی تھی اس سینٹر میں۔

اس ادارے میں ایک ہال نما جگہ معذور افراد کی تعلیم کے لئے مختص کی ہوئی ہے۔ اوول شیپ کی میز کے گردتقریبا آٹھ یوزرز (شاگرد) اساتذہ سمیت براجمان تھے۔ ان یوزرز میں ایک لڑکی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ اس کو دیکھ کر اچانک گونگے فقیر کا خیال ذہن میں آگیا۔ میرے ذہن میں ہر وہ خیال گردش کرنے لگا جو اس فقیر کو دیکھ کر مجھے کوفت میں مبتلا کر دیتا۔ میں اپنے آپ کو پشیمان محسوس کرنے لگی۔ اپنی سوچ میں گم تھی کہ ایک پست قد آدمی میرے برابر آکر کہنے لگا باجی کھانا کھا لیں۔

وہیل چیئر پر براجمان یہ شخص اس ادارے کا باورچی تھا۔ میرا سر چکرانے لگا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا موازنہ ان لوگوں سے کرنے لگی۔ کھا نا پکانے جیسا مشقت بھرا کام وہیئل چیر پر؟ ایک دم میرے شعور سے آواز آئی“یہ لوگ ڈس ایبل نہیں بلکہ اسپیشلی ایبلڈ ہیں اور ان کے لیے خصوصی اقدامات ہونے چاہییں تا کہ یہ زندگی کی بھاگ دوڈ میں اپنا پورا حصہ ڈال سکیں۔ ایسا ہی ایک اقدام ادارے نے خودموبلٹی ورکشاپ کے نام سے شروع کیا ہے۔

یہ ادارہ معذور افراد کی سفری سہولت کے لئے مختلف قسم کی سواریاں بناتا ہے۔ ان میں مختلف قسم کی موٹر سائیکلیں اور وہیل چئیرز شامل ہیں۔ خاص سواریوں کی بناوٹ کے ساتھ ساتھ ان کی مرمت کا کام بھی ورکشاپ میں کیا جاتا ہے۔ اس بار مجھے سن کے حیرت نہیں ہوئی کہ ورکشاپ میں کام کرنے والے تمام افرادبھی جسمانی طور پر معذور ہیں۔ دراصل اس ادارے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں موجود ہر شخص جسمانی معذوری کا شکار ہے لیکن انہوں نے اس معذوری کو اپنی طاقت بنا کر استعمال کیا ہوا ہے۔ ا س ادارے کا بنیادی مقصد معذور افراد کو ان کی زندگی بغیرکسی دوسرے انسانی سہارے کے گزارنے کے قابل بنانا ہے۔

واپسی پر پھر ایک بار مجھے اس گونگے فقیر کی بے بسی کا احساس شدت سے ہوا۔ کراچی کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں نجانے کتنے افراد جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ دہائیوں سے نظر انداز یہ طبقہ جو اس بات سے ناواقف ہیں کہ ڈس ایبلڈ ویلفئر ایسوسی ایشن جیسے ادارے معذور افراد کی زندگی آسان بنانے کی مہم میں مصروف ہیں لیکن دوسری جانب اس بات کا بھی افسوس ہے کہ یہ ادارے صرف محدود لوگوں کو رکھ سکتے ہیں اور حکومتی سطح پر ابھی ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوا جو ان افراد کا ذمہ اٹھا سکے۔ مگر خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کے یہ جسمانی معذور افراد ہمارے معاشرے کی طرح ذہنی طور پر مفلوج نہیں ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کے تمام رنگوں کو اپنی کینوس پر خوش اسلوبی سے بکھیر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).