”اسٹیٹس کو“ اور لہراتے ہوئے مکے


آج سے 25 سال پہلے کا زمانہ آج سے بہت مختلف تھا۔ بچوں پر ماں باپ پابندیاں لگاتے اور بچے بھی ان پابندیوں پر عمل کرنے پر مجبور ہوتے۔ مگر زمانہ بدل رہا تھا، زمانہ بدل گیا۔ آج کے دور میں چند اصطلاحات ایک نوع کے وظیفے کا درجہ حاصل کر گئی ہیں۔ ان اصطلاحات میں سے ایک ٹیبو ہے۔ ٹیبو ایسے موضوعات کو کہا جاتا ہے کہ جن پر بات نہیں کی جاتی، ان موضوعات پر بات بڑی شدت سے سماجی قوت سے کچل دی جاتی ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ ٹیبوز ہوتے ہیں، مغرب کی تہذیب جدید (اگر اسے تہذیب کہا جا سکتا ہے تو) نے ٹیبوز کو توڑنے کا وطیرہ اختیار کیا۔

اب سارے ہی ٹیبوز دراصل دور قدیم کے تعصبات کا درجہ پا گئے۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب ہی سب سے قوی تہذیب ہے جو اپنی توپوں اور ذرائع ابلاغ سے دنیا پر مکمل طور پر غالب پا چکی اور یہ مغربی غلبہ تقریباً سابق دو صدیوں سے جاری ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ عمل رفتہ رفتہ بڑھتا ہی جاتا ہے اس لیے آج سے محض 25 سال پرانا ہی زمانہ کوئی پچھلی صدی کی بات معلوم ہوتی ہے۔ آج سے 25 سال قبل گھروں میں باپ حقیقی بادشاہ کا درجہ رکھتے تھے۔

اس کے بعد ماں کا انتظامی درجہ ہوتا، پھر چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی وغیرہ ہوتے۔ اگر دادا، دادی یا نانا، نانی حیات ہوں تو ان کی حیثیت بھی بڑی اہم ہوتی۔ بڑے بھائی بہن بھی عزت کے لائق سمجھے جاتے اور ان کی نافرمانی بھی ناپسندیدہ ہوتی۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ سب رشتے اپنے مرتبوں سے نیچے اتر رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب گھروں میں بادشاہت کہ جگہ جمہوریت نے لینی شروع کی۔ اب بہت سے ماں باپ نے اسی میں عافیت جانی کہ وہ سیدھی شرافت سے برطانیہ یا جاپان یا تاش کے بادشاہ کا رتبہ اختیار کر لیں۔

اس عہد میں بہت سے ”الطاف حسین“ شرافت سے ”ممنون حسین“ بن گئے۔ ماں باپ کی حیثیت یا قوت محض آئی ایم ایف نما رہ گئی کہ ان کے پاس معاشی قوت ہے، وہ بچوں کا خرچ اٹھاتے ہیں، اس لئے انہیں حق ہے کہ وہ اپنے بعض مطالبات بچوں سے منوا سکتے ہیں۔ مگر یہ ماں باپ کا وہ مقدس ناطہ ہرگز نہ تھا جو ادیان نے ہزاروں سال میں پیدا کیا تھا۔ یہ تو محض معاشری بلیک میلنگ کا رشتہ تھا، جمہوریت کے ہی ساتھ ساتھ ہمارے گھروں میں ”انسانی حقوق“ بھی نازل ہو گئے۔

اب رشتوں میں حساب کتاب ہونے لگے، جس نے آپ کو جو دیا بس آپ اس کو اتنا ہی تول کر دیں گے۔ اس سے ایک دانہ بھی زیادہ نہیں، اور اس ناپ تول میں ہر کوئی اس سے کم ہی دوسروں کو دینے لگا جتنا اس نے دوسرے سے پایا تھا۔ ہر کسی کو اب اپنی پرائیویسی عزیز ہونے لگی، اب ”بڑے“ دراصل ایسے لوگ تھے کہ جن کو ہر ہر لمحہ بدلنا تھا، اب ماموں، خالہ، چچا، پھوپھی، ممانی، خالو، چچی، پھوپھوا تو بس خاموش ہی ہو کر رہ گئے کہ ”بھئی اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے“۔

مگر بڑے بھائی بہن بھی بس دفتری کولیگز نما کچھ بن گئے۔ آج سے تقریباً 20 سال قبل ایسے گھرانے سب لوگوں کو بڑے جابرانہ لگنے لگے کہ جو ابھی تک بادشاہت ہی تھے اور جمہوریت نہ بنے تھے۔ جہاں ابھی بھی باپ باپ ہی تھا، ”مائی ڈیئر فرینڈ“ نہ تھا۔ اور امی جان ”ممی ڈیئر“ نہ بنی تھیں۔ ویسے یہ بھی طے ہے کہ جب بادشاہتیں ختم ہو رہی ہوتی ہیں تب بچی کچھی بادشاہتیں بڑی ظالم بھی بن جاتی ہیں۔ وہی اس دور میں ہو رہا تھا۔

بادشاہت گھرانے نئے نظام سے ڈر رہے تھے۔ گھبرا رہے تھے مگر ہر ہر خاندان ان کے ارد گرد بدل رہا تھا۔ رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے چھوٹے گھریلو ٹیبوز ٹوٹ رہے تھے۔ کبھی کوئی نئے خیال کا رشتے دار آ جاتا تو ایسے موضوعات پر زور سے بولنے لگتا، ہنسنے لگتا کہ بادشاہت گھرانے میں لوگ کانپ جاتے۔ بادشاہت گھرانے باہر کے خیالات کو روکنے کے لیے تب بڑی محنت کرتے نظر آتے، بعض گھروں میں ٹی وی کو فساد کی جڑ سمجھ کر گھر میں داخل نہ ہونے دیا گیا تھا۔

کچھ گھروں میں ٹی وی تھا مگر وی سی آر یا ڈش نہ تھا۔ پھر کچھ گھروں میں وی سی آر تو تھا مگر ڈش نہ تھا اور وی سی آر پر فلمیں چلاتے ہوئے بڑا سخت سینسر کیا جاتا۔ یہ سب آزادی کے مختلف درجات تھے، مگر پھر کمپیوٹر کا انقلاب برپا ہونے لگا اور اس نے ساری ہی بادشاہتوں کوتاراج کر دیا۔ اس عہد میں بند گھرانوں کے بچے عموماً دوسروں کے گھروں میں جب جاتے تو ان پر کم و بیش وہی اثرات مرتب ہوتے جو شمالی کوریا کے رہنے والوں پر کہیں باہر جا کر ہوتے ہیں۔

ان پچھلے 25 سال میں ہم نے ہر ہر ٹیبو کو ایک عام سا موضوع بنتے دیکھا۔ لوگوں کے مذہبی عقائد بھی بڑی حد تک بدل چکے۔ روایتی اسلام کی جگہ اب غیر روایتی یا جدید اسلام نے لے لی، ہر چیز کی تعبیر جدید ہو رہی ہے، ہر رشتے کی تعریف جدید ہو رہی ہے۔ رفتہ رفتہ دور کے رشتے دار پھر قریب کے رشتے دار اور پھر ماں، باپ، بھائی، بہن، اولاد سب ہی بس انفرادیت اور ذاتی زندگی میں رکاوٹ بنتے گئے۔ اس نوع کی تبدیلی کے عہد میں لفظ انقلاب اور تبدیلی ایک منتر ہے۔

ہر کوئی یہی منتر پڑھتا ہے، جو مذہبی ہے وہ بڑے فخر سے کہتا ہے کہ وہ جدید قسم کا، غیر روایتی نوع کا مذہبی ہے اور اس کا مذہب تو بہت عقلی، منطقی اور سائنسی ہے۔ جو مذہبی نہیں ہے وہ بھی جدیدیت پسند ہے۔ ہر کوئی بڑا سینہ پھلا کر یہ ضرور بتاتا ہے کہ اس نے کب کب کس کس ”اسٹیٹس کو“ کو کہاں کہاں پچھاڑا۔ ہمارے ایک استاد بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ کیسے انہوں نے اپنے جامعہ کے زمانے میں اپنے ایک استاد کی بھری کلاس میں ”بولتی بند“ کر دی تھی۔

یہ واقعہ سناتے ہوئے اس واقعے کے کوئی بیس سال بعد بھی ان کی آواز فرط جذبات سے کپکپانے لگتی۔ ہمارے زمانے میں ایک طالب علم خود کو ”فرائیڈین“ کہتا تھا۔ وہ بھی سارے اساتذہ سے خوب خوب الجھتا اور اس عمل میں کسی نوع کی انقلابی شان و شوکت تراشتا رہتا۔ 2004 ء میں اس نے بالآخر تعلیم نامکمل چھوڑ کر جامعہ کو خیر باد کہہ دیا۔ حال ہی میں یہ شخص اپنی اس جدلیاتی روش پر 14 سال بعد فخر کرتا پایا گیا۔ حیرت ہے سب اسے کسی غیر اہم وجود کی طرح بھول بھی گئے مگر اسے یاد ہے اور وہ اس پر فخر کرتا ہے۔

وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ سارا معاشرہ یہی تو کر رہا ہے، ہر کسی کے پاس اپنی لائی ہوئی تبدیلیوں کی طویل فہرست ہے۔ کوئی فخر سے یہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنے گھر سے تعویز گنڈے اکھاڑ پھینکے۔ کوئی یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے سسرالیوں کو ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ سینما لے گیا۔ کوئی اس لئے انقلابی ہے کہ اس نے اپنے سسرال میں سب کو ہر قسم کی کتابیں لا کر دیں اور ان کی سوچ کو بڑی وسعت دے دی۔ کوئی کسی وجہ سے انقلابی ہے اور ”اسٹیٹس کو“ کو مکا لہرا کر دکھا رہا ہے اور کوئی کسی اور کارنامے پر تقریباً ”چی گویرا“ ہی بنا پھر رہا ہے۔

کسی نے مذہبی اشرافیہ کو دندان شکن جواب دیا ہے تو کسی نے اپنے دفتر میں کسی نوع کا انقلاب برپا کر دیا ہے اور پرانی قوتوں کے تو ہاتھ پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ اب یہ اسی نوع کے دعووں اور لہراتے مکوں کا معاشرہ ہے۔ اب بڑی حد تک سماجی رشتے ٹوٹ چکے، خاندانی رشتے کمزور پڑ چکے یا ٹوٹ رہے ہیں۔ باقی جو بچا ہے وہ دکھاوا ہے، مفادات ہیں، ڈھونگ ہے۔ ہر سابقہ ٹیبو اب بچے بچے کے لیے شاہراہ عام ہے۔ پرانی قوتوں کی تو علامات بھی معاشرے سے اب مٹ رہی ہیں مگر پھر بھی ان کو گرانے اور ان سے ٹکرانے کا دعویٰ کرنے والے ٹوکرے بھر کر ہر طرف مل جاتے ہیں۔

ہم ایک ایسے صاحب سے واقف ہیں جو آج سے 13 سال قبل ایک شمال کے گاؤں سے کراچی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ تب محترم کو جامعہ کی ہر لڑکی کم از کم طوائف معلوم ہوتی تھی مگر آج سے 6 سال قبل جب وہ پی ایچ ڈی کر کے اپنے گاؤں واپس گئے تو بڑی بھاری تنخواہ والی نوکری مل گئی، اب آپ کی شادی کی نوبت آئی تو آپ نے اپنی والدہ محترمہ سے کہہ دیا کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں کہ کسی گنوار اور بھیڑ بکری نما لڑکی سے شادی کر لیں۔ ان کے لئے ایک انہی کے قبیلے کی ماسٹر پاس لڑکی تلاش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ پی ایچ ڈی ہیں اور لڑکی ماسٹرز، اس لئے دونوں میں ہم آہنگی مشکل ہے تو وہ لڑکی سے نکاح تو کر لیں گے مگر اسے پی ایچ ڈی کروانے کراچی بھیجیں گے۔

گھر والے مان گئے بیچارے۔ بیچاری لڑکی کو نکاح کے بعد کراچی بھیج دیا گیا جہاں وہ 2 سال کی کوشش کے باوجود ایم فل مکمل نہ کر سکی۔ بیچاری کو واپس گاؤں جانا پڑا، حال ہی میں خبر آئی ہے کہ لڑکی کو انہی کے ادارے میں تحقیقی معاون کی نوکری مل گئی ہے اور اس کی رخصتی بھی ہو گئی ہے۔ موصوف بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سماجی ٹیبو کو توڑ دیا ہے اور شمال میں ایک نوع کا انقلابی زلزلہ سا لے آئے ہیں جس سے ”اسٹیٹس کو“ کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔

موصوف کے انقلاب کا تو معلوم نہیں مگر ان کی منکوحہ کو جامعہ کراچی میں دوران ایم فل دیکھنے کا اتفاق راقم الحروف کو ہوا تھا اور تب بیچاری کے چہرے کے کرب سے یہ تحریر باآسانی پڑھی جا سکتی تھی کہ ”میں کس جنجال میں پھنس گئی؟ “ ایک کا انقلاب، دوسرے کے لئے جنجال ہی تو ہے۔ ہر انسان آج کے ”تبدیل“ زمانے میں معاشی سرگرمی کے قابل ہو کر ہی کارآمد ہوتا ہے۔ ہر رشتہ اسی چیز کی تفسیر ہے، اسے انقلابی آزادی کہیے یا زوال آدم۔ ایک ہی بات ہے مگر جدیدیت سے متعلق تصورات پر بات کرنا آج کل سب سے بڑا ٹیبو ہے اور حقیقی Tabooپر بات کرنا اور سننا کس قدر مشکل کام ہے، یہ ہمیں اندازہ ہے۔ اس لئے جمہوریت، آزادی اظہار، انفرادیت، خود پرستی وغیرہ وغیرہ سب کچھ زندہ باد! آئیے ہم بھی مکا لہرا کر کسی نیم مردہ ”اسٹیٹس کو“ کو للکاریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).