ممی اور پریوں کی داستان


کچھ دنوں سے اپنی داستان میں میں اپنا پسینہ خشک کرتی رہی اور تھکی ہوی ماں کے دکھڑے روتی رہی۔ آج اس پریوں کی کہانی کی بات کرتے ہیں جس کا نام بچے ہیں، ممتا ہے اور ماں بچے کی کہانی ہے۔ جب مائیں بچے پال پال تھک جاتی ہیں تو پھر ان کی پریوں کی کہانی بھی بوڑھی ہو جاتی ہے میری طرح، وہ کہتے ہیں ناں
Familiarity breeds contempt!

تو پھر اس پریوں کی کہانی کے اجلے گہرے رنگ بھی دھندلے اور بے تاثر لگنے لگتے ہیں۔ ہمیشہ نہیں، بس جب تک بچے جاگتے ہیں، بچے سو جائیں تو پریوں کی کہانی، ماں اور بچے کی وہی میٹھی داستان پھر سے تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ بھی لیتی ہوں گی اکثر سوئے بچوں کی پپیاں!

تو آج کچھ کرتے ہیں ایسی ہی میٹھی میٹھی باتیں! میں نے اپنے بچوں کو سکھایا ہے اک شوگر مینیا۔ کبھی کبھی جب میں میٹھے میٹھے موڈ میں ہوں تو بچوں سے کہتی ہوں ”میری شوگر لو ہو گئی ہے!
My sugar is getting low!

اور تینوں بھاگے آتے ہیں مجھے جپھی ڈالنے تا کہ میرا شوگر لیول بڑھ سکے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آؤ اماں کو اک جپھی دو! پھر کبھی کبھی میری بیٹیاں آ جاتی ہیں۔ کہتی ہیں

” Mama! do you need sugar؟ “
مما! آپ کو شوگر چاہیے؟ ”

اور میں سمجھ جاتی ہوں اب ان کا گلے لگنے کا من ہے۔ اس چھوٹی سی اک پریکٹس کا بہت فائدہ ہے۔ بچہ الجھتا نہیں۔ کوئی بہانہ نہیں ڈھونڈتا، اسے اک کھیل مل جاتا ہے سیدھی دل کی بات کے اظہار کا۔ یہ جپھیاں اور پپیاں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ جیسے ہمیں چاہیے ہوتی ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں، دوستوں اور شریک حیات کے ہونے کا احساس، اسی طرح چھوٹے بچوں کو بھی چاہیے ہوتی ہے ہماری محبت کی گرمی، ہمارے بازوؤں کا حصار! اگرچہ یہ نسخہ بھی ہر وقت یاد نہیں رہتا مگر جب بھی آزمایا جاتا ہے بہت ہی پرلطف اور شیریں ہے۔ بچے کو دل سے لگا کر کبھی کبھی ماں کے دل کو ٹھنڈک پہنچانے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ضرورتوں اور ذمہ داریوں کی سختی بہت کچھ بھلائے رکھتی ہے تو کبھی کبھی اس طرح کے سیدھے اور ڈائریکٹ محبت کے اظہار دل کو بہت سکون دیتے ہیں، ماؤں کو بھی اور ماؤں کے راج دلاروں کو بھی۔

پھر بچوں کے لنچ باکس بنانے کا روز کا جھنجٹ۔ یہ مشکل لنچ باکس کبھی کبھی بہت خوبصورت ہو جاتے ہیں بچوں کے لئے جب ان میں نگٹس، کھیرے، فرائز اور جوسز کے ساتھ ہم ایک چھوٹا سا خط ڈال دیں کوئی، بچے کی پڑھنے کی صلاحیت کے مطابق

l love you darling
Miss you
My cute son!

وغیرہ، اگر آپ کا بچہ بھی میری طرح نرسری میں ہے تو، اور اگر وہ کچھ لائنیں پڑھ سکتا ہے تو کوئی چند حرفی محبت کا اظہار، کوئی چھوٹی سی کہانی، کوئی مزے کی نظم کے ساتھ لگے ایک دو سٹکرز: اس سے کیا ہوتا ہے؟ یہ ہم ماؤں کے لیے تو اک اضافی زحمت ہی ہے مگر جب ہم ان کے لئے ساری زندگیاں وقف کر جاتے ہیں، سارے پیسے لٹا کر ان کی الماریاں کپڑے جوتوں اور کھلونوں سے بھر دیتے ہیں، تو پھر یہ تو بہت ہی اک ذرا سی کوشش ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ بچہ جب سکول جا کر سب بچوں کے بیچ لنچ باکس کھولتا ہے تو اس میں سے نکلتی ہے مما!

بچہ ایک دم اپنے دوستوں میں معتبر ہو جاتا ہے۔ سکول میں جہاں وہ آپ کو بھول چکا ہوتا ہے وہ محبت سے یاد کرنے لگتا ہے۔ اور یہی وہ میٹھی میٹھی خوشگوار یادیں ہوتی ہیں جنہیں آنے والے مستقبل میں وہ یاد رکھتا ہے۔ ہماری روک ٹوک، نصیحتیں تو بہت بعد کے زمانے میں ان کو سمجھ میں آنی ہیں۔ یہ چھوٹے موٹے کبھی کبھار کے محبت کے اظہار ماں اور بچے کے رشتے میں خاصا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کیا آپ کے بچے بھی اپنا گرا دانت تکیے کے نیچے رکھتے ہیں تا کہ ٹوتھ فیری انہیں آ کر لے جائے؟ آمنہ اور فاطمہ نے خوب دانت سنبھال سنبھال ٹشو پیپر میں لپیٹ کر تکیے کے نیچے رکھے۔ ساتھ چھوٹے چھوٹے خط بھی پری کو یہ بتانے کے لئے کہ ان کو اس بار کیا گفٹ چاہیے۔ پھر آدھی رات کو ٹوتھ فئیری ان کے تکیے کے نیچے سے خط اور دانت نکال کر اس کی جگہ ایم اینڈ ایمز رکھتی رہی۔ یہاں تک کہ ان کو خبر ہو گئی کہ یہ ٹوتھ فیری ان کی مما ہی تھی۔

ان پریوں کی کہانی کو ہم بہت وقت نہیں دے پاتے مگر جب کبھی بھی دیے سکیں دے ہی لینا چاہیے۔ ورنہ ماں ہونا وہ عہدہ ہے جس میں پچھتاوے جان نہیں چھوڑتے۔ کاش ایسے کر لیتے، کاش ویسے کر لیتے ، مائیں اولاد کے لئے کر کر تھک جاتی ہیں پھر بھی پچھتاتی رہتی ہیں کہ وہ اچھی مائیں نہیں بن سکیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم ناکام مائیں تھیں۔ بس ہماری حدیں یہیں تک تھیں۔ انسان کے مقدر میں جتنی محنت، جتنی کامیابی، جتنی شہرت، جتنی محبت لکھی ہو وہ اس سے زیادہ بھر نہیں پاتا! مگر ماؤں کا دل ہے کہ کچھ بھی کر کے ہمیشہ بے چین ہی رہتا ہے۔ اس کی وجہ ہماری نا اہلیت نہیں، ہمادی بے تحاشا محبت ہے۔

اور ایک سب سے اہم بات: کوالٹی ٹائم کی مسٹری! ساری ساری زندگی، پورے پورے دن اور راتیں، مکمل کئریر، دن رات کا چین دے کر بھی ہم مائیں بے چین رہتی ہیں کہ شاید ہم کوالٹی ٹائم نہیں دے سکے بچوں کو۔ ان کے ساتھ مل کر کھلونوں سے نہیں کھیلا، گھنٹوں بیٹھ کر کارٹون نہیں دیکھے، کہانیوں کی کتابیں نہیں سنائیں۔ یہ کوالٹی ٹائم کی مسٹری بھی ان یورپی عورتوں کے لئے دریافت کردہ ہے جن کے بچے سارا دن نینیز اور میڈز کے ہاتھوں پلتے ہیں، ان کو منانے کے لئے کہ کسی بہانے کچھ وقت ضرور اپنے بچوں کے سنگ گزاریں۔

وہ مائیں جو چوبیس گھنٹے بچوں کو اپنے ہاتھ سے نہلاتی دھلاتی ہیں، اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہیں اور دن رات ان کی ہر ضرورت کے لئے ان کے قریب رہتی ہیں وہ بچوں کو کوالٹی ٹائم سے بہت آگے گزر کر کوالٹی لائف دے چکی ہیں۔ سو آج ہر الجھن سے نکلیں، میرے ساتھ آپ بھی اپنے کندھوں پر اک تھپکی دیں اور کھل کر مسکرائیں! پریوں کی اس کہانی کو ہر رنگ آپ نے دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).