ماہرِ نفسیات کی ڈائری: قتل یا معافی؟


ہر ماہرِ نفسیات کی پیشہ ورانہ زندگی میں چند ایسے واقعات ہوتے ہیں جنہیں وہ عمر بھر نہیں بھلا سکتا۔ آج میں بھی اپنے یادگار واقعات میں سے ایک واقعہ جس نے مجھے بہت سوچنے پر مجبور کیا تھا، آپ سب سے شیر کرنا چاہتا ہوں۔

میری جب پہلی بار اپنے مریض جم سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت دکھی تھا۔ وہ اتنا زارو قطار رو رہا تھا کہ اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے اسے پینے کو پانی دیا تاکہ اس کی طبیعت کچھ بہتر ہو جائے۔ کہنے لگا ”میری شادی کو بیس برس ہو گئے ہیں۔ میری ایک چودہ برس کی جوان بیٹی جوئین بھی ہے۔ میری بیوی کے کینسر کی تشخیص چھ ماہ پہلے ہوئی تھی۔ تشخیص ہونے تک اس کا برسٹ کینسر سارے جسم میں پھیل چکا تھا۔ میں نے چھ ماہ اس کی بہت خدمت کی اور پچھلے ہفتے وہ فوت ہو گئی۔ میں اس سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا۔ اب میں بکھر گیا ہوں“۔

میں نے جم سے کہا کہ وہ ہر ہفتے مجھ سے ملنے میرے کلینک آیا کرے۔ وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگا اور واپس کام پر چلا گیا۔ وہ ایک ہائی سکول کا استاد تھا۔ اس کے شاگرد اس کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے۔ جم اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھا کیونکہ اب وہ بغیر ماں کے رہ گئی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں جوئین نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہو جائے۔

پہلی ملاقات کے چند ماہ بعد جم ایک سیمینار اٹینڈ کرنے ایک ویکنڈ کے لیے نیاگرا فالز گیا۔ اس نے اپنے ایک قریبی دوست اور اس کی بیگم سے جب درخواست کی کہ وہ اس ویک اینڈ اس کی بیٹی کا خیال رکھیں تو وہ مان گئے۔

اتوار کے دن جم کو ہوٹل میں پولیس کا فون کیا۔ پولیس افسر نے پوچھا ”آپ کی چودہ سالہ بیٹی جوئین کہاں ہے؟ “ جم نے کہا ”میرے دوست رچرڈ اور اس کی بیگم کیرن کے پاس“۔ پولیس نے کہا ”ایسا نہیں ہے۔ وہ اس وقت نیاگرا فالز کے ایک ہوٹل میں ہے۔ اسے ایک پمپ نے طوائف بنا دیا ہے۔ “ اتفاق سے جوئین اس ساتھ والے ہوٹل میں تھی جسے جم اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھ سکتا تھا۔ جم نے اس ہوٹل سے جوئین کو لیا اور سیمینار چھوڑ کر گھر آ گیا۔

جم حد سے زیادہ پریشان تھا۔ اس کا غم غصے میں بدل گیا تھا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگا۔ ”بطورِ باپ میرا جی چاہتا ہے کہ میں جا کر اس حرامزادے کو قتل کر دوں جس نے میری بیٹی کی عصمت کا سودا کیا ہے۔ لیکن میں ایک مہذب ملک کا مہذب شہری ہوں۔ میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا۔ “ ایک ہفتے کے بعد جم کہنے لگا ”میرے اندر ایک عیسائی بھی موجود ہے۔ میں حضرت عیسیٰ کا پرستار ہوں اور عیسیٰ اپنے دشمن کو معاف کرنے کا سبق سکھاتے ہیں۔ “

میں جم کی مدد کرتا رہا۔ وہ ہر ہفتے اپنے دل کی باتیں کرتا، اپنی پریشانیاں سناتا اور میں اس سے ہمدردی سے پیش آتا۔ ایک دن جم کہنے لگا ”ڈاکٹر سہیل! میں یہ باتیں کسی اور سے نہیں کر سکتا۔ یہ سب میرے لیے باعث ندامت ہیں“۔ میں نے جم کو مشورہ دیا کہ وہ کس ٹریٹمنٹ سنٹر سے اپنی بیٹی کے لیے نفسیاتی مدد حاصل کر سکتا ہے۔

پولیس نے اس دلال کو پکڑ لیا تھا اور جیل میں رکھا ہوا تھا۔ کینیڈین پولیس کم سن بچیوں کے جنسی استحصال کے بارے میں بہت سخت گیر ہے۔ آخر پولیس نے دلال کو عدالت لے جانے کا فیصلہ سنایا۔ جم کے لیے اپنی بیٹی کے ساتھ کمرہِ عدالت جانا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ جم کو ڈر تھا کہ جب وہ عدالت میں اس دلال کو دیکھے گا تو اس کا خون کھول اٹھے گا۔ میں نے اس کو سہارا دیا اور ہمت بندھائی کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ جائے تا کہ جج اپنا فیصلہ سنا سکے۔

عدالت کے ایک دن بعد جب جم مجھ سے ملنے آیا تو بہت بدلا ہوا انسان تھا۔ کہنے لگا ”ڈاکٹر سہیل! کل جو کچھ عدالت میں ہوا ہے وہ ایک کرامت سے کم نہیں“ تفصیل پوچھنے پر جم نے کہا ”میرے لیے عدالت میں جانا آسان نہیں تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ میں آپے سے باہر ہو جاؤں گا۔ میں آپ کے مشورے کی وجہ سے اپنی مدد کے لیے اپنے ایک دوست کو ساتھ لے گیا تھا۔ عدالت میں پولیس نے بیان دیا۔ جوئین نے کہانی سنائی کہ کس طرح اس دلال نے جوئین اور اس کی ایک سہیلی کو ایک شاپنگ سنٹر میں ورغلایا اور اپنے ساتھ نیاگرا فالز لے گیا اور ایک گاہک کے حوالے کر دیا۔ “

جج نے ساری کارروائی سننے کے بعد اس پمپ کو بھاری جرمانہ ادا کرنے کو کہا اور چند سال کے لیے جیل جانے کا حکم دیا۔ لیکن پھر جج نے مجرم سے کہا ”کیا جیل جانے سے پہلے تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟ “۔ پمپ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ”میں جوئین کے والد جم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں“ پھر اس نے جم کی طرف دیکھا اور کہا ”میرا نام ڈیوڈ ہے۔ میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد نہ ہو لیکن میں کئی سال پیشتر آپ کا شاگرد رہ چکا ہوں۔ مجھے بالکل پتہ نہ تھا کہ جوئین آپ کی بیٹی ہے۔ مجھے معاف کر دیں“۔ اور وہ کمرہِ عدالت میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ جم نے بھی اپنے رومال سے اپنے آنسو خشک کیے۔

جم نے مجھے بتایا کہ عدالت میں اس تبادلے نے اس کے دل پر مرہم رکھ دیا ہے اور اس نے اپنے شاگرد ڈیوڈ کو معاف کر دیا ہے۔
پھر جم نے اٹھ کر مجھے گلے لگایا اور میرا شکریہ ادا کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میری آنکھیں بھی نم تھیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail