ایک نقطے نے ہمیں بیجنگ میں بیگنگ کر دیا!


راقم کے خیال میں زندگی اتفاقات سے عبارت ہے اور اتفاقات سے زیادہ بے ڈھنگی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے جگسا پزل میں سب ٹکڑے اتفاقات کی دیوی آ کر جوڑتی ہے اور جب اس کا جی چاہتا ہے ساری بساط بکھیر کے چلی جاتی ہے۔ راقم کا یہ بھی خیال ہے کہ انسان جس چیز سے بھاگتا ہے وہ اس کی جان کو پیر تسمہ پاء بن کی چمٹ جاتی ہے۔لاکھ کندھے جھٹکے ، لاکھ جان چھڑائے ، جان نہیں چھوٹتی۔

راقم کا یہ بھی خیال ہے کہ زبانِ خلق نہ صرف یہ کہ نقارۂ خدا ہوتی ہے بلکہ خلق کا حلق پکڑنے سے پکڑنے والا ہلکا لگتا ہے۔ خلق تو وہ خلقِ خدا ہے جس کے لیے فیض صاحب کہہ گئے ہیں کہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ راقم یہ بھی سوچتا ہے کہ انسان ہر شے سے بھاگ سکتا ہے ، اپنے آپ اور اپنے کہے ہوئے الفاظ سے نہیں بھاگ سکتا۔

راقم کو اس قدر سوچنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب معلوم ہوا کہ، وزیرِ اعظم صاحب کی بیجنگ کے دورے کی رپورٹنگ کے دوران، سرکاری ٹی وی کی سکرین پہ، بیجنگ کی بجائے لفظ بیگنگ، ایک نہ دو پورے بیس سیکنڈ جگمگاتا رہا۔ گو اس لفظ کو فوری طور پہ پکڑ دھکڑ کے شاہی قلعے کی کوٹھڑی نمبر تیرہ میں بند کر دیا گیا لیکن برا ہو خلقِ خدا کا، لے اڑی ۔

راقم نے اس نئی حکومت کی ابتدا ہی میں ایک بات پکڑ لی تھی اور وہ یہ کہ اس دورِ حکومت کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لیے فرائیڈ کا مطالعہ لازمی قرار دے دینا چاہیے۔ یوں نفسیات دانوں کو کھلی چھٹی ہے وہ یونگ، شوپنہار یا نطشے کے نظریات سے بھی مدد لے سکتے ہیں لیکن راقم کو فرائیڈ کی تھیوریاں چلتی پھرتی نظر آ رہی ہیں۔

یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ موجودہ حکومت کے انتخابی نعروں میں سب سے بڑا نعرہ، قرض کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ ہمارے محترم وزیرِ اعظم نے تو جوشِ خطابت میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ان کو کبھی قرض مانگنا پڑا تو وہ خود کشی کر لیں گے مگر قرض نہیں مانگیں گے۔ نفسیات دان ایسے کٹنی فطرت کے ہیں کہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آپ کے سامنے آپ کا کوئی جاننے والا مذاق میں بھی خود کشی کا ذکر کرے تو اس سے ہو شیار ہو جائیں اور اس کے شب و روز پہ نظر رکھیں ، خود کشی نہیں کرے گا تو آ پ کو نقصان ضرور پہنچائے گا۔

اب ایسا ہے کہ، ملک میں سنسر شپ کی سب سے گندی شکل، سیلف سینسر شپ، کی باد سموم چل رہی ہے۔ ایسے میں اجتماعی لاشعور ہو شیار ہو جاتا ہے، سچ کہنے کو بے تاب ہو جاتا ہے ۔ملک میں لا قانونیت کا بازار گرم تھا، خلقِ خدا گھروں میں دبکی بیٹھی تھی اور سڑکوں پہ احتجاج جاری تھا۔ ایسے میں اور اس سے پہلے جو جو صحافی بول رہے تھے، انہیں اسی سیلف سنسر شپ کے ذریعے خاموش کرا دیا گیا۔

یوں تو صحافی کی ویسے بھی اربابِ اقتدار کے سامنے کیا اوقات؟ پھر سرکاری ٹی وی کے ملازم کی کیا مجال کہ آقا سے اس قسم کا لطیف مذاق کرے؟ ایسی ظرافت تو اسے ہی سوجھ سکتی ہے جس نے پطرس اور پی جی وڈ ہاؤس کو پڑھا ہو اور لہری کے شستہ مذاقوں پہ ہنسا ہو۔ ایسے لوگ ایک تو ویسے بھی کمیاب ہیں اور اگر معدودے چند کہیں پائے بھی جاتے ہیں تو وہ جگہ ہرگز ہرگز پی ٹی وی کے خبر نامے کا سیکشن نہیں ہے۔

پرانے شہروں کے نام جانے کہاں سے چلے تھے اور بدلتے بدلتے کیا سے کیا ہو گئے؟ ابھی پڑوسی ملک ہی میں دیکھ لیجے۔ الہ آباد کا کیا ہوا اورہمارے ملک میں کرشن نگر کا کیا بنا۔ یہ بیجنگ بے چارہ بھی کبھی پیکنگ ہوتا تھا اور اس سے پہلے ینجنگ،جیجنگ، نینجنگ ،دادو، بائی پنگ اور جانے کیا کیا نام ہوں گے؟ بڑے شہروں کی تاریخ بڑی عبرت ناک ہوتی ہے ۔ بہت ممکن ہے کسی زمانے میں اس شہر کا نام بیگنگ بھی رہا ہو۔

سنا ہے کہ اس معاملے نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ سرکاری ٹی وی کے کسی بڑے عہدے دار کا سر لے کے ٹلا۔ گو ہر بات کی طرح اس کی بھی تردید کر دی گئی اور ہر معاملے کی طرح اس تردید کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ لفظ اتنا گندہ ہے کہ اس کا وجود ٹیلی ویژن کی سکرین پہ برداشت نہیں کیا جارہا تو جب یہ لفظ عمل میں ڈھل جاتا ہے تو کس قدر گندی گالی بن جاتا ہے۔

جب سیلف سنسر شپ کی پٹی باندھ کر، مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان، طلعت حسین، نصرت جاوید اور جانے کتنوں کو خاموش کرا دیا گیا تو ‘ فرائیڈین سلپ’ کے تحت سچ، ٹائپوز کی شکل اختیار کر کے آپ کی ناانصافی کا بھوت بن کے آ پ کے اپنے سرکاری ٹی وی پہ آدھمکا۔ بخدا قصور وار پی ٹی وی کے اہلکار نہیں ، سچ ہے۔ اسے پکڑیے اور الٹا لٹکا کر مرچوں کی دھونی دیجیے لیکن کیا آپ سچ کو گرفتار کر سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).