سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کیسے ہو؟


پچھلے دو گھنٹے سے میں اپنے کمپیوٹر کی خالی سکرین کو گھور رہا ہوں، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں، دو چار فقرے لکھتا ہوں اور پھر کاٹ دیتا ہوں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں، ایسا اکثر ہوجاتا ہے اور اسی کڑے وقت کے لیے میں نے موضوعات کی ایک ٹوٹی پھوٹی سی فہرست بنا کر رکھی ہوئی ہے، کچھ نوٹس بھی محفوظ ہیں۔ مگر آج کل ملک میں جس قسم کے حالات ہیں، ان میں ان موضوعات کی کوئی گنجایش نہیں، لیکن کوئی بات نہیں، ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں۔

ویسے بھی نہ جانے کیوں مجھے یہ خوش گمانی سی ہے کہ پروپیگنڈا کے اس دور میں سچائی کی جستجو جاری رہنی چاہیے، اگر کوئی ایک بھی شخص اس کاوش سے متاثر ہو جائے تو محنت وصول ہوجاتی ہے۔ مصیبت لیکن یہ ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا پنا جھوٹ۔ ابھی صبح ہی میرے دوست ’ایکس‘ نے فون کر کے مجھ سے یہ عجیب و غریب سوال پوچھا کہ بتاؤ کہ تم غدار ہو یا محب وطن۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس بات کا کیا جواب دوں۔ میں نے اسے کہا کہ آخری مرتبہ جب میں نے چیک کیا تھا تو یہی پتا چلا تھا کہ میں پاکستانی ہوں، میرے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر بھی یہی شناخت لکھی ہے اور الحمدللہ میں کبھی آئین شکنی کا مرتکب بھی نہیں ہوا، ان باتوں کے علاوہ تو میرے پاس اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

اس پر ایکس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ تمہاری باتوں سے غداری کی بو آ رہی ہے۔ حاشا و کلا مجھے نہیں معلوم اس نے کس بنا پر یہ اندازہ لگایا لیکن اگر پیمانہ یہی ہے کہ غداری اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ محض صوابدیدی اختیار استعمال کر کے جاری کیا جائے گا تو اس کا حل ماسوائے اس کے کچھ نہیں کہ آپ اس شخص کے ہمنوا بن جائیں جس کے پاس یہ اختیار ہے۔ نازی جرمنی میں یہ اختیار ہٹلر کے پاس تھا، روس میں سٹالن، اٹلی میں مسولینی، چلی میں پنوشے، عراق میں صدام حسین اور رومانیہ میں یہ اختیار چاؤ شسکو کے پاس تھا۔

ان تمام لیڈران کے مخلص پیروکار یہی سمجھتے تھے کہ ان کا لیڈر دیوتا ہے، وہ جو کہتا ہے وہی حق ہے، وہی سچ ہے، اس کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن ہیں، لہذا انہیں نیست و نابود کر دینا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے ملک کی محبت میں اور خلوص نیت سے یہ سب کچھ کہتے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ خیالات راسخ کیسے ہوئے جس کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ جو ان کے نظریات کے ساتھ نہیں وہ ملک دشمن اور غدار ہے؟

اس سوال کا یک حرفی جواب ہے ’پروپیگنڈا۔‘ بظاہر یہ لفظ منفی لگتا ہے اور اس کا ترجمہ ہم جھوٹ کے مترادف کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اس تکنیک کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ پروپیگنڈا جھوٹ اور سچ کا ملغوبہ ہوتا ہے جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر لوگوں کے سامنے اس تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ کسی حد تک یہ تعریف درست ہے مگر اس میں ایک باریکی بھی ہے جسے ہم فراموش کر دیتے ہیں۔

پروپیگنڈا کرنے والے کا اصل کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے بیانیے کو بہتر اور قابل قبول بنا کر یوں عوام کے سامنے پیش کرتا ہے کہ انہیں لگتا ہے جیسے ان کے پاس اس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ جو اپنی عام زندگی میں بے حد کامیاب اور قابل سمجھے جاتے ہیں بعض اوقات جب کسی پروپیگنڈا کا شکار ہوتے ہیں تو اس وقت وہ کچھ ایسی بے سروپا باتوں کی حمایت بھی کرتے نظر آتے ہیں جن کی حمایت وہ کبھی اپنی عملی زندگی یا عام حالات میں نہ کرتے۔

اصل میں وہ بے سروپا افکار کی حمایت نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ اس ترجیحی بیانیے کا لباس پہن رہے ہوتے ہیں جو ان کی نظر میں اپنے مخالف کے بیانیے سے بہتر ہوتا ہے، ایک مرتبہ جب وہ یہ لباس پہن لیتے ہیں تو پھر اس لباس میں لگے پیوند انہیں نظر نہیں آتے اور اگر نظر آتے بھی ہیں تو وہ یہ کہہ کر خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ ان کے پیوند کے مقابلے میں مخالف کا لباس تو جگہ جگہ سے پھٹا ہوا ہے، ہمارا لباس کم از کم جسم تو ڈھانپ رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے معاملے میں عقل کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے، کیا ہم عقلی بنیادوں پر دلائل پرکھ کر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کر سکتے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے، نہیں۔ عملی دنیا میں حتمی سچ یا مطلق جھوٹ کا تعین کرنا مشکل کام ہے، ہم حق اور باطل کو پرکھنے کے پیمانے ضرور بنا سکتے ہیں مگر سیاسی بیانیے کی پڑتال کرتے ہوئے یہ پیمانے کام نہیں آتے کیونکہ ایک عام شہری معاملے کی زیادہ گہرائی میں جانے کا تردد نہیں کرتا، وہ اپنی اخلاقیات یا ضابطہ حیات ایجاد نہیں کرتا، یہ چیزیں وہ مذہب سے اخذ کرتا ہے یا اپنے رسم و رواج سے، اس تناظر میں جب اسے کوئی بیانیہ مربوط انداز میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ فقط موٹی موٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ہی اپنا وزن کسی لیڈر کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے۔

ضروری نہیں کہ یہ کوئی عقلی فیصلہ ہو، یہ محض جذباتی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اکثر سیاسی لیڈران کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ خود اپنی پالیسیوں کی تشہیر سب سے زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی لیڈر کے پاس یہ ہنر ہو یا وہ یہ ہنر سیکھ لے، جیسے کہ آنجہانی ہٹلر اور جوزف گوئیبلز، ان سے زیادہ اس فن کا کوئی ماہر پیدا نہیں ہوا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ سیاسی لیڈر کا ہاتھ بے شک عوام کی نبض پر ہو اور وہ عوام کے لیے عمدہ پالیسیاں بھی بنا سکتا ہو مگر ضروری نہیں کہ وہ یہ بات غیر مبہم انداز میں عوام تک پہنچا بھی سکے۔

اس کی مثال سیاست کا ’پرفارمنس ماڈل‘ ہے۔ اس ماڈل میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ محض کارکردگی ہی وہ پیمانہ ہے جس پر عوام کسی حکمران کو ’جج‘ کرتے ہیں۔ اس ماڈل کے حامی اکثر طیب اردگان کی مثال دیتے ہیں جس نے پہلے بطور مئیر استنبول اپنی کارکردگی منوائی اور پھر اس کارکردگی کی بنیاد پر عوام نے اسے وزیر اعظم منتخب کیا۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر ایک عام ووٹر محض کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتا۔ کسی لیڈر کی حمایت کرنے کے لیے کارکردگی پیمانہ ضرور ہے مگر اس کے سو میں سے تیس یا پینتیس نمبر ہیں، باقی نمبر اس بیانیے کے ہیں جو ذہن سازی کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے، اس میں اگر کوئی لیڈر ناکام ہو جائے تو پھر وہ کارکردگی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔

بالکل ایسے جیسے کوئی امیدوار تحریری امتحان میں تو اول آئے مگر انٹرویو میں کچھ بول ہی نہ پائے تو اس کا تحریری امتحان بھی بیکار ہی جاتا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں جتنی انڈسٹری لگی شاید اس کی مثال نہیں ملتی مگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے ایک جملہ بول کر اس ترقی کی دھجیاں اڑا دیں کہ ’مجھے اسلام آباد سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔ ‘ یہ اس بیانیے کی طاقت تھی جس نے ملک ہی توڑ دیا۔ لہذا آج اگر کسی نے کامیاب ہونا ہے تو اسے کارکردگی کے ساتھ ساتھ ایسا بیانیہ بھی تشکیل دینا ہو گا جسے اوڑھ کر عام آدمی کو یہ اطمینان ہو کہ اس کا لباس اس کے ہمسائے سے بہتر ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments