نئے پاکستان میں قبضہ گروپوں کی نئی فہرست سازی


غلام حسین پارک جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے کونے میں ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا اسی پمپ کی وجہ سے اوور ہیڈ برج چھوٹا نہیں رہ گیا تھا ؟ ہاں بھئی ! رہ گیا تھا۔ اب بات پرانی ہو گئی۔ اب آپ یہ کہے بنا بھی نہیں رہیں گے کہ 1986 سے اس پمپ کی اراضی کی لیز کی کوئی منظوری نہیں تھی، گویا اس وقت سے غیر قانونی۔ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے تو سنیے۔ پرانے زمانہ میں لمبے سفر سے آئے ہوئے شوہر کو بیوی صحن میں کھیلتے تین بچوں کا بتا رہی تھی۔ دو بچوں کا لولا لنگڑا جواز پیش کر چکی تو شوہر بولا۔ ”اچھا ان دو کو چھوڑو لیکن بتاﺅ یہ تیسرا کہاں سے آ گیا “؟اب عورت اپنا اعتماد قدرے بحال کر چکی تھی۔ بولی! ”بیچارہ ایک کونے میں بیٹھا دہی سے روٹی کھا لیتا ہے۔ آپ کا کیا لیتا ہے؟“۔ ایک کونے میں پڑے اس پٹرول پمپ کا بھی کسی سے کیا لینا دینا تھا۔ لیکن حیرت ہے کہ عمران خان کی تبدیلی اس پمپ سے شروع ہوئی اور اسی پر رک گئی۔ میرے شہر میں اتنی تبدیلی ہی آئی ہے۔

ننکانہ صاحب میں محکمہ انہار کے 1832 ایکڑ پر غیر قانونی قبضہ تھا۔ قابض سرکار کو ٹھیکہ وغیرہ کچھ نہیں دیتے تھے۔ ڈیڑھ ہزار ایکڑ پر قابض کوئی بھائی پھیرو کا راجپوت تھا اور بقیہ رقبے پر لاہور سے ایک بٹ صاحب۔ دونوں گھرانے ان دنوںسرکار کے ہاں معتوب ہیں۔ سو اس اراضی کا جھٹ سے قبضہ چھڑوالیا گیا۔ جھنگ میں عابدہ حسین کے پاس بھی 25مربعے ہیں۔ محترمہ سرکار کو باقاعدگی سے ایک سو اور کچھ روپے فی ایکڑ سالانہ ٹھیکہ ادا کرتی ہیں۔ خود وہ اسی زمین کا اپنے مزارعین سے پچاس ہزار روپیہ فی ایکڑ وصولتی ہیں۔ ان کی لیز عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے۔ میاں شہباز شریف کے دور میں بھی یہ مسئلہ زیر غور ضرور آیا لیکن سیاسی مصلحتیں آڑے آگئیں۔ اب ڈپٹی کمشنر جھنگ نے پھر اسے رپورٹ کیا ہے۔ لیکن سرکار کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ ان دنوں محترمہ عابدہ حسین کے شوہر نامدار جناب فخر امام پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ سو پھر غور و خوض نئے سرے سے شروع ہو چکا ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟

پچیس مربعوں پر اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ گوجرانوالہ کھجور منڈی میں 55 دکانیں ہیں۔ ایک ایک دکان ، ایک ایک مربع سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک دکان کا کرایہ بھی اتنا ہی جتنا محترمہ عابدہ حسین ایک مربعے کا ٹھیکہ سرکار کو ادا کرتی ہیں۔ میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ کی ملکیتی ان دکانوں کی ملکیت میں وہ شہری بھی حصہ دار ہیں جنہیں کبھی کبھی بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ وہ بیمار بھی جن کے پاس علاج معالجہ کا کوئی بندوبست نہیں۔ پچھلے دنوں سالڈ ویسٹ کمپنی گوجرانوالہ کے ایم ڈی سے ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے۔ میرے ایک دوست نے ایک ہفتہ کے لئے کچھ ٹرالیاں بخشیش کی ہیں۔ ان سے شہر میں خاصا کوڑا کرکٹ اٹھا لیا جائیگا۔ وہ اپنے حاتم طائی دوست کی سخاوت کی داد بھی خود لینا چاہتے تھے۔ کالم نگار پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ ” کیا کسی صاحب جائیداد فرد یا ادارے کیلئے زکوٰة، خیرات لینی مناسب ہے ؟ مقامی میونسپل کارپوریشن اگر اپنی جائیداد کا بازاری کرایہ وصول کرلے تو وہ خود بخشیش کرنے کے قابل ہو سکتی ہے “۔ اس سلسلے میں کالم نگار نے کھجور منڈی کی دکانوں کی مثال پیش کی۔ ان دکانوں کے ذکر سے وہ کچھ بد مزہ ہو گئے۔ بولے ! اور سنائیں کیا حال چال ہے ؟ ایک فارغ سے نوجوان وکیل نے میونسپل کارپوریشن سے دریافت کیا۔ آپ کی دکانوں کی تعداد کتنی ہے اوران کا ماہوار کرایہ کیا ہے ؟جواب ندارد۔ پھر اس نے پنجاب انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا۔

دیکھئے اسے وہاں سے کیا جواب ملتا ہے۔ کیا معلوم وہاں میونسپل کارپوریشن کا نمائندہ پوری ڈھٹائی سے جواب دے۔ ”حضور! یہ چھوٹا سامعاملہ تھوڑی ہے۔ برسوں لگ جائیں گے ساری معلومات اکٹھی کرتے ہوئے۔ حوصلہ رکھئے۔ کبھی نہ کبھی آپ کو جواب ضرور مل جائیگا“۔ سائیں اختر لاہوری اپنے پنجابی شکوہ ”اللہ میاں تھلے آ“ میں ایک جگہ کسی چندہ برائے تعمیر مسجد کی صندوقچی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”مینوں گھر تے دے نئیں سکیا ، اپنا گھر تے آپ بنا “۔ وہ بھولے بادشاہ نہیں جانتے تھے کہ اک زمانہ میں اللہ کے گھر اسلئے بھی بنائے جائیں گے تاکہ اس کی آڑ میں کچھ ناجائز تجاوزات قانون سے محفوظ رہیں۔ حضرت بلھے شاہؒ نے اک درویشانہ کیف و مستی میں کہا تھا۔ ”گھر بھن اوس رب دا ، اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ“۔ درویش بلھے شاہ ؒ زندہ ہوتے تو عرض کرتا۔ ”بابا جی ! ان کے لئے بھی کچھ ارشاد فرما دیجئے۔ جو اپنی ناجائز تجاوزات کے تحفظ میں ”اوس ٹھگاں دے ٹھگ “کو بھی اس کا ایک گھر بنا کر ٹھگ لیتے ہیں“۔

گوجرانوالہ کے بڑے خاں صاحب کے گھر سے سیدھے آگے چلیں۔ ایک فرلانگ کے فاصلے پر وہاں آپ کو ایک ایساہی منظر نامہ دیکھنے میں ملے گا۔ خانہ خدا کی اوٹ میں بہت سی ناجائز تجاوزات محفوظ پڑی ہیں۔ کالم نگار نے ایک اہلکار سے پوچھا۔ ”ان دنوں آپ کے بھلے مانس سے ڈپٹی کمشنر کو ناجائز تجاوزات کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ آپ انہیں یہ رپورٹ کیوں نہیں کرتے؟“۔ جواب ملا۔ ”ان ناجائز تجاوزات کو ن لیگی حکومت میں بھی کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکا تھا۔ آج کل تو حکومت بھی ان کی اپنی ہے۔ پھر کچھ ہم ماتحتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے افسروں کو الجھنوں میں نہ ڈالیں۔ اس لئے ہم یہ رپورٹ نہیں کر رہے“۔ ایسے فرض شناس اہلکار اپنے ڈپٹی کمشنر کوالجھن سے ضروربچائے رکھیں۔ لیکن یہ کیا کہ چیئرمین جی ڈی اے نے سارے شہر کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ وہ ایک مقامی پرائیویٹ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے مالک کی ایک کروڑ روپے نقد رشوت ٹھکرا کروزیر اعظم عمران خان تک سے داد سمیٹ چکے ہیں۔ لیکن وہ اس مالک ہاﺅسنگ سوسائٹی کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی بجائے اس کا نام تک بتانے سے انکاری ہیں۔ شہر میں کئی بھلے مانسوں کی جانب انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور معزز وکلا بیچ اس مسئلہ کے، کسی مجرم کا نام پوشیدہ رکھنا شریعت اور تعزیرات پاکستان میں جرم ہے یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).