سنسر شپ ملکوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے


”اب تم نے یہ لفظ بولا تو تمھاری زبان پہ انگارہ رکھ دوں گی“ یہ ہے اکثر بچوں کا سنسر شپ سے اولین تعارف، اور پھر چل سو چل، زندگی بھر کسی نہ کسی شکل میں سنسر شپ سے واسطہ رہتا ہے، کوئی بات بڑوں کے سامنے نہیں کرنی، کوئی بات بچوں سے چھپانی ہے، کچھ سوال محلے کے امام مسجد سے پوچھنے والے نہیں ہیں اور کچھ موضوعات اسکول میں شجرِ ممنوعہ قرار پاتے ہیں۔ اس ساری تربیت سے مقصود ایسی دماغ سازی ہے جو ہمیں ”بِیبا“ شہری بنادے، حاضر و موجود پہ قانع کر دے، معاشرے کے طاقت ور طبقات کا احترام ہماری نفسیات میں کندہ کر دے، ایسا شہری جو سوال کم سے کم کرے، بلکہ نہ ہی کرے تو بہتر ہے، یعنی ”آہستہ خرام بلکہ مخرام“۔

عقل عیار ہے لہذا سنسر شپ کی کئی ”معقول“ وجوہات ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ اپنے ”مخرب الاخلاق“ افسانوں کے باعث سعادت حسن منٹو عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے رہتے تھے۔ ”نظریہ پاکستان“ سے متصادم خیالات کے باعث مادرِ مِلت محترمہ فاطمہ جِناح کی کتاب ”میرا بھائی“ جو 1955 ء میں لکھی گئی، 1987 تک نہ چھپ سکی۔ اور ”ریاستی“ سنسر شپ کی خلاف ورزی کے جُرم میں اپنے حبیب جالب اکثر دھر لیے جاتے تھے۔

” فحاشی“ اور ”اخلاق باختگی“ کی کوئی منا سب تعریف ہماری نظر سے گزرے گی توسنسر شپ کی اخلاقی وجوہات بارے بھی بات کریں گے، فی الحال سنسر شپ کی سیاسی وجوہات تک محدود رہتے ہیں۔ بلکہ ”خوفِ فسادِ خلف“ سے اسے بھی رہنے ہی دیں۔ سنسر شپ دراصل ہمیں ذاتی طور پہ صرف ایک صورت میں قبول ہے اور اسی نسبت سے گفتگو موزوں رہے گی۔

2002 کی بات ہے، ہم پی ٹی وی پرائم نام کے ایک ٹی وی میں کام کرتے تھے جو اُن دنوں امریکا اور یورپ میں آبادہم وطنوں کے لئے اکلوتا پاکستانی چینل تھا۔ ایک دن دفتر ایک گورے کا فون آیا جس نے بتایا کہ وہ آف کوم لندن ( برطانوی پیمرا کہہ لیجیے ) سے بول رہا ہے اور کیوں نہ ”آپ کے ٹی وی کا لائسنس معطل کر دیا جائے“۔ پوچھا، ہم سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے تو جواب ملا کہ ”آپ نے دن دیہاڑے ایک ڈرامہ کا اشتہار چلایا ہے جس میں ایک مرد کردار ایک عورت کو تھپڑ مارتا ہے“۔

اُس کی بات ہماری سمجھ میں نہ آئی کیوں کہ ہم تو ہر ڈرامہ کے پرومو کو تھپڑوں کا تڑکا لگایا کرتے تھے، بلکہ تھپڑوں کے زیادہ سے زیادہ مناظر کامیاب پرومو کی ضمانت سمجھے جاتے تھے، سیدھے ہاتھ کی ”ٹانٹ“ اُلٹے ہاتھ کی ”چپیڑ“، لڑکی کے ہونٹوں کے کنارے سے بہتی ہوئی خُون کی لکیر، لڑکی کو بالوں سے پکڑ کے گھسیٹنے کا منظر، اور پھر غیرت کے نام پر قتل کے نتیجے میں لہو میں لت پت لڑکیوں کی لاشیں۔ گورے نے بتایا کہ عورتوں پر تشدد اور خون دن کے اوقات میں ٹی وی پہ دکھانا سختی سے ممنوع ہے کیوں کہ اس وقت ہمارے بچے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور اس ضابطہ کی خلاف ورزی پہ کڑی ترین سزا دی جاتی ہے۔ دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس نے ہمارے صرف ایک ہی ڈرامہ کا پرومو دیکھا ہے۔ بہرحال ”آئندہ ایسا نہیں ہو گا“ کی تحریری یقین دہانی اور صد معذرت کے بعد ہماری جاں بخشی ہوئی۔

سنسر شپ کی یہ واحد وجہ ہے جو ہمیں معقول نظر آتی ہے اور یہ سنسر شپ کی اکلوتی شکل ہے جو غالباً اس مُلکِ خدا داد میں کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں میں آج بھی صبح شام خواتین تھپڑوں کی زد میں ہیں۔ خواتین پہ روز شام ڈراموں میں تشدد دیکھنے والے بچوں کے کچے ذہنوں پہ کیا سٹیریو ٹائپ مرتب ہو رہے ہیں اس پہ غور کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں۔ کبھی اس بنیاد پہ کوئی ٹی وی چینل کیبل سے غائب نہیں ہوا، کسی ٹی وی کے اشتہار بند نہیں ہوئے، کسی کو نوٹس جاری نہیں ہوا۔

ڈنگ ٹپاؤ قوموں کا مسئلہ ”آج“ ہے آنے والا کل نہیں، لہذا بچوں کو کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں یہ فروعی بحث ابھی ہم آغاز نہیں کر سکے۔ فی الحال ہماری توجہ کا محور سنسر شپ کی وہ اقسام ہیں جن کا تعلق بچوں سے نہیں ہے۔ ارادہ تھا تحریکِ لبیک کے ملک گیر دھرنوں پہ ٹی وی چینلز کی بے اعتنائی بارے لکھنے کا اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔

سنسر شپ معاشرہ کا خود پہ اظہارِ عدم اعتماد ہے۔ جہاں دلیل ختم ہوتی ہے وہاں سے سنسر شپ شروع ہوتی ہے۔ کیا گلی گلی ناچتی حقیقت سنسر شپ کے پردے میں چھپ جاتی ہے؟ ایک دفعہ کا ذکر ہے، دو پیار کرنے والے شُتر مرغ ریت میں سر دیے کھڑے تھے، مادہ شُترمرغ اپنے محبوب سے بولی ”آخر ہم کب تک یوں چُھپ چُھپ کے ملتے رہیں گے“۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پاکستان کے قریہ قریہ، بستی بستی جوہم سب دیکھ رہے تھے، بھگت رہے تھے، وہ ٹی وی چینلز نہیں دکھا رہے تھے۔

سنسر شپ کے بارے چودھری شجاعت حسین نے ایک واقعہ ”سچ تو یہ ہے“ میں رقم کیا ہے جو غالباً اس کتاب کا سب سے جذباتی ٹکڑا ہے۔ یاد رہے کہ چودھری صاحب ”محتاط ڈرائیونگ انجام بخیر“ پہ کامل یقین رکھتے ہیں، خوگرِ حمد ہیں، گفتگو بھی انتہائی ماپ تول کہ کرتے ہیں اور کُجا کہ تحریرکا معاملہ ہو۔ لکھتے ہیں ”16 دسمبر 1971 ء کو میں راولپنڈی انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل کی لابی میں بیٹھا تھا۔ لابی میں ٹی وی سیٹ آن تھا اور اُس پر جنرل یحییٰ خان کا خطاب نشر ہو رہا تھا۔ اُن کی تقریر کے یہ الفاظ اب تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ کسی ایک محاذ پر پسپائی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی ہے، جنگ جاری ہے، ہم دُشمن کا ہر محازپر مقابلہ کریں گے اور سرنڈر نہیں کریں گے۔ ہمارے ایک قریبی عزیز ساجد حُسین چٹھہ فوج میں افسر تھے اور اُن دنوں ڈھاکا ہی میں تعینات تھے“۔ چودھری صاحب نے اُنہیں اُسی وقت ہوٹل کی لابی سے فون کیا تو ساجد چٹھہ نے بتایا کہ وہ خندق میں بیٹھے ہیں اور ان تک سرنڈر کے احکامات پہنچ چکے ہیں۔

چودھری صاحب لکھتے ہیں ”یہ سُن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، زمین پاؤں کے نیچے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی، پہلی بار دُکھ اور کرب کے احساسات بھرپور طاقت کے ساتھ میرے اندر اُبھر آئے۔ ٹی وی اسکرین پر جنرل یحییٰ خان کی تقریر ابھی چل رہی تھی۔ میرا جی چاہا کہ جُوتا اتاروں اور ٹی وی کی اسکرین پر دے ماروں۔ مجھے آج تک افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اُس وقت جوتا اتار کر ٹی وی اسکرین پر کیوں نہیں دے مارا۔ “

تو بس عرض یہ کرنا تھا کہ سنسر شپ اچھی چیز نہیں ہوتی، اس سے نقصان ہوتا ہے، اور کئی مرتبہ تو ناقابلِ تلافی نقصان ہو جاتا ہے۔
وضاحت: اگر آپ کو یہ کالم کہیں کہیں بے ربط لگا ہے تو یہ فقط سیلف سنسر شپ کا نتیجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).