قدموں تلے سے تیز بہت رہ گزر گئی


بچپن سے جوانی اور جوانی سے ادھیڑ عمری تک کے بیتے ماہ و سال زندگی کی پٹڑی پریوں دوڑے کہ، کونپل نکلنے سے زنجیر گلنے تک، لبوں پر مسکان اورپلکوں پر نمائش کتنی دیر رہی کبھی حساب لگا نے کی فرصت نہ ملی۔ شعراء کے کلام کا بیشتر حصہ اپنوں کی بے وفائی اور محبوب کی یاد میں آہ و بکا کے اظہار سے عبارت ہوتا ہے۔ پر ہماری زندگی میں تو مانو رات کبھی آئی نہیں۔ بھڑکتے سورج کی ہیبت ناک نظروں سے رات کی سیاہی سہم کر جانے کہاں چلی جاتی۔

ایڈیسن کی مستعار ٹمٹماتی روشنی اس کی ایک ڈکار میں غائب ہو جاتی۔ یہ آگ کا گولہ روازآنہ کتنے ٹمٹماتے ستارے نگل جاتا، چاند ہڑپ لیتا، صبح کا اجا لا ہضم کر لیتا اور پھر اسی کرو فر کے ساتھ بد معاشی دکھاتا کسی دوسری جانب چلا جاتا، اندھیرا بڑے وقار اور تمکنت سے آہستہ آہستہ اپنی تاریکی بڑھاتا ہوا آتا۔ پر رات کا حسن ہم پر حاوی ہو سکا، نہ سورج کی ہیبت سے ہم مرعوب ہوئے۔ مصروفیت کا وہ عالم کہ ہمارے آگے سردیوں کی راتیں سکڑی رہیں اور گرمیوں کے دن پگھلے رہے۔ کام اتنے تھے کہ بے کاریوں کے شغل کی حسرت ہی رہی۔

بچے چھوٹے ہونے اور کام زیادہ ہونے کی وجہ سے گھر، باہر اور تدریسی امور بے ترتیب اور پھیلے رہتے۔ سنک میں رکھے برتنوں کی طرح ایک کے بعد ایک کام بڑھتا ہی رہا۔ اسکول سے آنے کے بعد جلدی تیار ہوجانے والا کوئی بھی سالن بنایا، روٹیاں ڈالیں، شدید بھوک میں ہر طرح کا کھانا بے حد مزے دار لگتا۔ برتن سنک میں رکھے اور دھونے کے خیال سے ہی نیند غالب آنے لگتی۔ انہیں یوں ہی چھوڑ کر بچوں کے پاس جلدی سے آکر لیٹ جاتے، مبادا میاں جی اٹھ گئے تو انہیں کھانا نکال کر دینا نہ پڑ جا ئے۔

ہمیں سوتا دیکھ کر شکر ہے خود ہی نکال لیتے ہیں ہمیں نہیں جگاتے۔ دو پہر ہو یا رات سونے سے پہلے بچوں کو ذہن سے اختراع کر کے روزانہ نئی کہانی سنانا بھی ان بکھرے کاموں میں ایک نیند بخش کام تھا، کہ اس دوران نہ جانے کب بچے اور ہم سو جاتے۔ مگر ہماری ڈائری ہمارے ہمزاد کے ہاتھ رہتی جو ہمیں دیگر امور نبٹانے کے لیے ہمارے سرہانے کھڑا ہو کر بلند آوازپڑھتا رہتا، میاں کی چپل ٹنکوانی ہے، بڑے بیٹے کی سائکل میں ہوا بھروانی ہے، اسکول کا پیپر بنا نا ہے، امی کو فون کرکے انہیں پوتے کی مبارک باد دینی ہے، بچوں کے سر میں چپڑے تیل کی وجہ سے انہیں نہلانا ضروری ہے۔ احمد کے کپڑے استری کرنے ہیں ورنہ وہ تین دن سے پہنے گندے، ملگجے کپڑوں ہی میں مشاعرہ پڑھنے چلے جا ئیں گے۔ کپڑے ٹب میں بھیگے ہیں، رشی کے یونی فارم کی پینٹ اوٹنگی ہو رہی ہے آج ضرور نیچے سے کھول کر بڑی کرنی ہے۔ رامش کی یونی فارم کی شرٹ پر سیاہی کا بڑا دھبہ بلیچ سے صاف کرنا ہے۔

یونی فارم، یونی فارم اس لفظ کی گردان آنکھ کھولنے پر مجبور کر دیتی۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے، گھڑی پر نظر پڑتی، اطمینان کا سانس لیتے، صرف آدھ گھنٹہ ہی سوئے، مگر ایسے ترو تا زہ جیسے دس گھنٹوں کی نیند کر لی ہو۔ اٹھ کر بچوں کی چیزیں کمرے سے سمیٹتے کچن کے برتن دھونے کے دوران، بھول جانے کے خیال سے رشی کی پینٹ کھول کر لمبی کی، رامش کی شرٹ دھو کر ڈال دی پھر خیال آیا کہ اسی پانی میں مزید کپڑے بھی دھو لیے جائیں تو اچھا ہے سو ٹب میں اور کپڑے ڈال دیے۔

اسی دوران ایک بچہ اٹھ گیا۔ جلدی سے تیل گرم کر کے پاپڑ تلے چائے بنائی اور اس کے آگے رکھ دی۔ میاں جی کی بھوک کی طرح سونے جاگنے کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں، انہیں کھچڑی پسند ہے جلد بن جا تی ہے سو دال چاول ایک ساتھ بھگو دیے۔ پڑوسن کی بچی نے بتا یا کہ ہمارا فون آیا ہے۔ بھاگم بھاگ برابر والے گھر جا کر بھائی کا فون اٹینڈ کیا، اتوار کو اس نے گھروالوں کی دعوت میں ہمیں بھی مدعو کیا تھا۔ فون رکھنے کے بعد سوچا نہ فرصت، نہ ٹیکسی کے کرائے کے فالتو پیسے، ایسے چونچلے تم ہی کو مبارک ہوں۔

دوسرا بچہ اٹھا تو اس کی پسند کا میٹھا پراٹھا بنایا۔ اس دوران ہی ان کی اسکول ڈائری دیکھ کر انہیں ہوم ورک کی ہدایات دیں۔ احمد کے کپڑے استری کرتے ہوئے ٹی وی لگا دیا۔ بے نظیر، پاکستان کی پہلی وزیراعظم، دوسری بارعہدے کا حلف اٹھا رہی ہیں۔ دل طمانیت کے احساس سے بھر گیا۔ اس دوران دال چاول بن گئے، دال کو بگھار دیا۔ بچوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ برتن سنک میں رکھے آنکھوں میں نیند جھولنے لگی۔ برتنوں کو سنک میں ایسے ہی چھوڑا۔

سامنے میز پر اسکول کے بچوں کی کاپیاں چیک ہونے کے لیے ہمارے انتظار میں پڑی تھیں۔ پیپر بھی تو بنانا تھا، لیکن نیند غالب آرہی تھی۔ بچوں کو کہانی سناتے سو گئے۔ پر ہمزاد ڈائری لیے سرہانے موجود رہا۔ رات کے تین بجے آنکھ کھلی۔ مالک تیرا شکر ہے چار گھنٹے کی نیند پر ایسے ترو تازہ جیسے آٹھ گھنٹے سوئے ہوں، سکون سے سارے کام نبٹائے۔ اور جانے کب صبح کے سات بج گئے جلدی جلدی بچوں کو ٹھایا۔ ناشتہ تیار کیا۔ ان کے لیے بنا کر ایک طرف رکھا، ہم تیز تیز قدم بڑھاتے اور بچے ہمارے پیچھے دوڑتے ہو ئے اسکول پہنچے۔ اسکول کے گیٹ پر پہنچ کر گھڑی دیکھی لیٹ ہو نے سے بال بال بچے تھے، بکھرے کام سمیٹنے کو وقت پورا نہیں پڑتا، بہرحال مالک تیرا شکر ہے، تونے ہمارے ہاتھ پاؤں اور ذہن سلامت رکھا ہے تب ہی اتنے کام جٹا پاتے ہیں۔

اس شکر گزاری کے احساس کے ساتھ، رفتار کی تیزی میں راہ گزر، قدموں تلے بنا غبار اڑائے یو ں نکلی کہ بچوں کے قد کے آگے ہم چھوٹے ہو تے چلے گئے۔

جیسے ہی بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے انہوں نے ہمیں نوکری کرنے سے منع کر دیا اندھا کیا چا ہے دو آنکھیں۔ فراغت جو میسر آئی تو ایک ایک کرکے کے اپنی تمام حسرتوں کو پورا کیا۔ جب جو بیٹا سو کر اٹھتا اسی وقت اسے تازہ روٹیاں بنا کر دی جاتیں۔ اب فریج میں کوئی سالن فریز نہیں ہوتا تھا۔ ہر سالن روز کے روز تازہ بنتا کوکنگ شو دیکھ کر کیک اور نت نئی ڈشیں بنتیں۔ پھر بچوں کے ڈیوٹی کے اوقات تبدیل ہو نے لگے۔ اب ناشتہ کر کے کھانا ساتھ لے جانے لگے۔

بڑا اچھا لگتا جب بتا تے کہ ان کے دوستوں کو ہمارے ہاتھ کا کھانا کتنا اچھا لگتا ہے۔ ہاتھ میں ذائقہ اور مصروفیت میں روحانیت سی آگئی۔ پھر بچوں نے اپنا آفس کھول لیا۔ اب اکثر وہ اپنا ٹفن آفس ہی بھول کر آجاتے۔ یوں پانچ ٹفن خرید لیے گئے۔ اب کسی روز خوب یاد دہانی پر سارے ٹفن گھر آجا تے۔ اکثر ٹفن میں کھانا آدھا یا سارے کا سارا بچا ہوتا استفسار پر اکثر یہ جواب ہو تا کہ دوستوں کا باہر ہی کھانے کا پروگرام بن گیا تھا۔ مگر یہ تو کچھ بھی نہیں وقت اپنے پاس کچھ نہیں رکھتا سارے حساب بے باق کرتا ہے، کچھ عرصے بعد بڑے والے کو دبئی سے کال آگئی آفر اچھی تھی ایسا موقع وہ نہیں گنوا سکتا تھا۔

چھوٹے بیٹے سے آفس کے معاملات نہیں سنبھل پائے، آفس بند کر کے اس نے ادھر ادھر درخواستیں بھیجنا شروع کر دیں، اسلام آباد سے اچھی آفر آنے پر وہ وہاں روانہ ہو گیا۔ اب جب بھی احمد اس سے کہتے ہیں کہ واپس آجاؤ تب اس کا یہ ہی جواب ہو تا ہے کہ وہ ہمیں جلد ہی بلا لے گا۔

میں اس کی ہمت بندھاتی ہوں پر ایک دن جب دبے الفاظ میں کہا کہ دل نہیں لگتا، اب کوئی کام ہی نہیں، گھر بھی سمٹا رہتا ہے، اب کو ئی کھانے والا نہیں رہا تو چولہا تک گندا نہیں ہوتا، فرج بھی بنا سبزی پھلوں کے کسی اجاڑ الماری کی صورت پڑا ہے۔ بڑا سمجھ دار ہے، بولا، آپ دوبارہ نو کری کیوں نہیں کر لیتیں۔

وقت کے ساتھ یاداشت کمزور پڑ جاتی ہے، تب یاد نہیں رہتا کہ ہمیں بھی جوانی میں دنیا کی تسخیر کی فکر کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں تھا۔ چند صدیوں قبل، گھر سے جانے والوں کی خیریت کی اطلاع برسوں بعد ملا کرتی تھی، ہمارے زمانے میں خطوط کے ذریعے خیریت اور شب و روز کے معمولات سے آگا ہی ہو کرتی تھی۔ تب خط لکھنا اور اسے سپردِ ڈاک کرنا دونوں کام ہی موڈ اور فرصت کے طلب گار ہوا کرتے تھے۔ معمولاتِ زندگی سے فراغت کے بعد جب گھر کی یا د ستاتی تو اماں یا ابا کا کو ئی تازہ خط نکا ل کر پڑھ لیا۔

جواب دینے کے خیال کو پھر اگلے دن پر رکھ کر، اگلے دن کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی نہ کی کہ اماں، ابا اس وقت کیا کر رہے ہوں گے۔ کیسے ہماری یا د میں بے چین ہوں گے، خط کا ہر روز کس بے چینی سے انتظار کرتے ہوں گے۔ کیسے ایک دوسرے پر اپنی شگفتگی کا جھوٹا اظہار کر کے دل سے اٹھنے والی ہو ک دباتے ہوں گے۔ اپنی سانسوں کو کیوں کر قابو میں رکھتے ہوں گے۔ صبح اور شام کا بستر کیسے لپیٹتے ہوں گے۔ البتہ ان کے خط میں سردی گرمی سے بچنے کے ٹوٹکے“ اپنا خیال رکھنے کی تاکید اور گھسے پٹے جملے پڑھ کر کوفت ضرور ہو تی اور آخری جملہ ”واپسی کی تاریخ سے جلد مطلع کرو۔ “ پڑھ کر باقاعدہ غصہ آجاتا۔

بڑھاپا بھی عجب چیز ہے، نوجوانی اور جوانی کے ایک ایک عمل کو آپ کے منہ پر آئے دن مارتا چلا جا تا ہے۔ احتجاج کی گنجا ئش نہیں کہ جانتے ہیں کہ یہ آپ ہی کا پھینکا ہوا وہ پتھر ہے۔ جوآپ کی طرف پلٹا یا جا ئے گا۔

وقت کی سوئیاں، خواہشات کے مخالف سمت چلتی ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمیں اپنی نوکری بوجھ لگتی تھی، آج فرصت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ پہلے مجبوری میں نوکری کرتے تھے، اب نوکری میں کئی شوق پالے ہوئے ہیں۔ پہلے سمیٹنے کو وقت نہیں تھا اب بکھیرنے کو کام نہیں۔

کل بہن نے فون پربتا یا کہ بھائی نے گھر بھر کی دعوت رکھی ہے۔ ہمیں نہیں بلایا، بھول گیا ہو گا، اس سے کیا ہو تا ہے۔ گزارے کے لیے وقت ہو تو ان چونچلوں میں کچھ نہ کچھ کھسک ہی جا تا ہے۔ شکر ہے مالک کا۔

اپنی فطرت کی یہ شکر گزاری ہمیں بڑی بھا تی ہے۔ اسی کی بدولت کڑا وقت خوش اسلوبی سے گزار دیا، اب مالک کا احسان ہے، وقت اچھا ہے، ہمیں خوش اسلوبی سے گزار رہا ہے۔

بھا گتے تھے ہم بہت، سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).