یووال حریری کی کتابوں سے سیکھنے والے سبق


مغرب کے اندر نت نئے علوم کی تحقیق چونکہ جاری و ساری رہتی ہے اس لیے ہر چند برس بعد ایک نہ ایک نمایاں مفکر اور دانشور اپنے کسی نئے نظریے کو پروان چڑھاتا نظر آتا ہے اور کئی ایک تو راتوں رات اپنے فن کی بلندیوں کو بھی چھو لیتے ہیں کیونکہ پڑھنے والے اتنی تعداد میں میسر ہوتے ہیں اور عالمگیریت اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ نے کتابوں، آئیڈیاز اور اشیا کی ترسیل کا ایسا مربوط نظام بنا دیا ہے کہ پلک جھپکتے میں چیزیں ادھر سے ادھر ہورہی ہیں اور ساری دنیا میں نئے آئیڈیاز کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔

حال ہی میں معروف ہونے والے اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یووال نوح حریری بھی ان میں سے ایک ہیں۔ چند برس کے عرصے میں تین نئی تحقیق سے بھرپور کتابیں لکھ کر وہ دنیا بھر سے داد سمیٹ رہے ہیں۔ پہلے Sapiens، پھر Homo Deus اور اب اکیسیویں صدی کے لیے انھوں نے اکیس سبق بھی تیار کردیئے ہیں اور درحقیقت دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے اور ایک طرح سے پچھلی دو کتابوں کا خلاصہ بھی اس کتاب میں جمع ہوگیا ہے۔

پہلی کتاب Sapiens بنی نوع انسان کے ماضی کی ایک منفرد اور اچھوتی تاریخ ہے جو انسانوں کے ارتقائی مراحل کی ایک خوبصورت داستان ہے اور لکھی بھی بہت عمدہ انداز میں گئی ہے۔ اس کے اندرکئی ایسے پہلو ہیں جو اگرچہ پہلے سے بہت سارے سنجیدہ محقیقن کی نظروں میں تھے مگر حریری نے اپنے دلنشیں انداز سے ان کو انسان کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پیش کرکے اور زیادہ نمایاں کردیا ہے۔ اس کے اندر خاص کر کے حریری نے انسانوں کے جسم، چہرے مہرے، دماغ اور دوسرے اعضاء میں جو تدریجا تبدیلیاں وقوع پزیر ہوئی ہیں اور پھر ان تبدیلیوں کے نتیجے میں انسان کے اندر کس طرح سے مختلف طرح کی صلاحیتوں کا ارتقاء ممکن ہوا ہے اس کا تذکرہ خاصے کی چیز ہے۔

حریری بتاتا ہے کہ اگر انسانوں کے دماغ، کھوپڑی اور جبڑوں کی ساخت میں ذرا سا بھی فرق واقع ہوتا تو زبان کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ پھر انسانوں کے اندر دماغی تبدیلیوں کے نتیجے میں مختلف تصورات کے امکان کا پیدا ہونا اور انسانی شعور کی جن مختلف سطحوں کے امکانات کی بات کی ہے، وہ واقعی پڑھنے کی چیزیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کو جدید تہذیب، ٹیکنالوجی میں ترقی، بڑھتی شہری آبادیوں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے بیگانگی کے جومسائل درپیش آرہے ہیں ان کا بھی انسانی ارتقا کے تناظر میں بہت خوبصورت انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ Sapiens ایک ایسی کتا ب ہے جو انسانی ارتقاء کے بہت سارے نئے اور اچھوتے زاویے ہمار ے سامنے کھولتی ہے اور ہر اس آدمی کو پڑھنی چاہیے جو انسانی تاریخ اور ارتقاء میں دلچسپی رکھتا ہو۔

دوسری کتاب Homo Deus انسانوں کے مستقبل سے متعلق ہے جس میں زیادہ زور مصنوعی ذہانت کی کارگزاریوں پر دیا گیا ہے اور بہرحال حریری چونکہ لکھنے کے فن سے واقعی آشنا ہے اس لیے یہاں بھی اس نے موضوع سے پوراپورا انصاف کیا ہے اور ہر پہلو پر دل کھول کر دلائل دیے ہیں۔ اگرچہ پہلی کتاب کے مقابلے میں یہ کتاب سنجیدہ تبصرہ نگاروں کی زیادہ توجہ نہ حاصل کر سکی (شاید ہم انسان مجموعی طور پر ماضی پرست ہی واقع ہوئے ہیں اس لیے ہمیں مستقبل کے مقابلے میں ماضی میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے ویسے یہ بذات خود ایک الگ تحقیق کا موضوع ہے ) ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماضی کا تجزیہ آسان ہوتا ہے کیونکہ ماضی کی اکثر معلومات دسترس میں ہوتی ہیں جبکہ مستقبل ایک غیر یقینی چیز ہے اس لیے ماضی کے قصے تو ذائقے دار لگتے ہیں لیکن اگر انسانوں کے مستقبل کے بارے میں بہت دوردراز کی باتیں کی جائیں تو ان میں شاید دلچسپی کم ہوتی ہے۔ پھر ایک اور وجہ بھی ہے کہ ماضی میں بہت سارے لکھاریوں نے مستقبل کے حوالے سے جو دعوے کیے تھے ان میں سے کئی درست ثابت نہ ہوسکے۔ اور اس حوالے سے نظر رکھنے والے محققین نے بتایا ہے کہ کئی چیزوں کی تو کوئی بھی پیشن گوئی نہیں کرسکا جیسے انٹرنیٹ کا ظہور اور عالمی دہشت گردی کا پھیلاؤ وغیرہ۔

اسی لیے مستقبل کے بارے میں لکھنے والے جو لکھاری 60 اور 70 کی دہائی میں مشہورہوئے تھے وہ بعد میں حتمی رائے دینے میں احتیاط برتنے لگے جیسے فیوچر شاک کے مصنف ایلون ٹافلر وغیرہ۔ لیکن حریری چونکہ اعداودشمار کے اسلحے سے لیس ہے اس لیے وہ ہر طرح کی احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاصی جرات آفریں انداز کی پیش گوئیاں کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتا۔

اس حوالے سے جو چیز حریری کوزیادہ حوصلہ اور توانائی فراہم کرتی ہے وہ ہے الیگروتھم۔ حریری کو ہر چیز کو الیگروتھم کے ساتھ نتھی کرنے میں بہت لطف آتا ہے اور اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ اس کا میدان ہے اور وہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے سہارے ایسے ایسے دلچسپ حقائق طشت ازبام کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ Homo Deus میں تو حریری نے مصنوعی ذہانت کی کارگزارویوں کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ دنگ کردینے والی ہے کہ کس طرح اب انسانوں اور مشینوں میں فرق کرنا واقعی مشکل ہوجائے گا کہ جو جو کام اب تک انسان کرتا چلا آیا ہے اب وہ بڑی آسانی سے مشینوں کے سپرد کیے جاسکیں گے۔

اور بقول حریری عین ممکن ہے کہ خود انسان اس جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دیوتاؤں جیسی طاقت حاصل کرلیں۔ لیکن اس سے جو نتیجے حریری نے نکالے ہیں ہے وہ کچھ آسانی سے ہضم ہونے والے نہیں ہیں اور شاید اسی لیے تاریخ پر نظر رکھنے والے ایک معزز تبصرہ نگارڈیوڈ برلینسکی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”انسانوں کے مسائل صرف تکنیکی نوعیت کے نہیں ہیں اور نہ ہی موت صرف ایک تکنیکی مسئلہ ہے، اعداد و شمار کے ہیر پھیر کو اصلی سچائی سمجھنے والے حریری کو غلط فہمی ہوئی ہے، انسان خدا نہیں بننے والا“۔

اسی تناظر میں دیکھیں تو اپنی حالیہ تصنیف ”اکیسویں صدی کے لیے اکیس سبق“ میں حریری نے ٹیکنالوجی، جمہوریت، اعدادوشمار، روزگار کے مواقع، مصنوعی ذہانت، دہشت گردی، جنگوں، مذہب، تعلیم اور دوسرے اہم امور کے کے حوالے سے بہت سارے سبق شامل کیے ہیں جو واقعی ازبر کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن اس میں حریری نے دہشت گردی کے حوالے سے جو سبق پڑھانے کی کوشش کی ہے وہ سادہ فکری کی ہی ایک مثال کہی جاسکتی ہے۔ حریری نے لکھا ہے کہ دہشت گرد ذہنوں کو قابو کرنے کے ماسٹر ہوتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اس طرح کی خوف اور دہشت کی فضا طاری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ دہشت گردی بہت بڑا مسئلہ ہے وگرنہ بقول حریری، دہشت گردی سے مرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوتی لیکن اس کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔

حریری چونکہ ڈیٹا کی دنیا کا بادشاہ ہے اس لیے اس کے نزدیک اہمیت بہرحال اعداد و شمار کی ہی ہے یعنی حریری کے بقول اگرکسی واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کم ہو تو یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے اور ہمیں خوامخواہ پریشان ہونے اور اس وجہ سے دہشت گردوں کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ مختلف اعداوشمار سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ حالیہ سالوں ( 2015 سے 2018 ) میں یورپ کے کئی ممالک میں دہشت گردی کے حملوں میں درحقیقت بہت کم تعداد میں لوگ مرے ہیں جیسے پیرس، بیلجیم، برسلز، لندن وغیر ہ کے اندر صرف سینکڑوں کی تعداد میں ہی لوگوں کی ہلاکت ہوئی او ر اس کے ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کے اندر کیے جانے والے دہشت گردی کے حملوں کا تذکرہ کرنا بھی نہیں بھولتا (باقی جو کچھ اسرئیل کرتا ہے اس کا ذکر ظاہر ہے گول کر دیا گیا ہے کیونکہ دہشت گردی تو بقول حریری صرف افراد ہی کرسکتے ہیں ریاستیں تو ظاہر ہے دہشت گرد نہیں ہوسکتیں اور اسی لیے فلسطینیوں کی اموات شایدحریری کے اعداد و شمار کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتیں )۔

لیکن وہ یہ بتانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے کہ ان سارے دہشت گردانہ حملوں میں اصلی جنگوں کے مقابلہ میں نقصان بہت کم ہوا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ خوف اور دہشت کا زیادہ شکار نظر آتے ہیں۔ کاش کہ سب کو حریری صاحب جیسی طمانیت اور اعداد و شمار کے دیوتا کی پوجا نصیب ہو تاکہ دہشت گردی کے کسی واقعے سے خوفزدہ ہونے کا فیصلہ اس بات پر کر لیا جائے کہ کسی واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کتنی تھی۔ حریری اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شاید بھول گئے کہ یورپ کے اندر ہونے والی جن جنگوں کا وہ تذکرہ کررہے ہیں ان میں سے ایک تو شروع ہی دہشت گردی کے ایک واقعے سے ہوئی تھی (جنگ عظیم اول) جس میں شاید بندہ تو ایک ہی مرا تھا لیکن وہ پھر لاکھوں اموات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی ملک میں اگرعشروں سے کوئی پرتشدد واقعہ نہ ہوا ہو تو وہاں ایک معمولی واقعہ کا بھی دہشت پھیلانے کا سبب بننا بالکل فطری ہوتا ہے جیسے کہ حریری نے دہشت گردی کا شکار یورپی ممالک کی مثال دی ہے کیونکہ وہاں کے مجموعی پر امن ماحول کوتہہ بالا کرنے کے لیے ایک واقعہ ہی بہت ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں اعداد و شمار کا چکر واقعی بعض بدیہی حقیقتوں کو بھی اوجھل کردیتا ہے اور یہی وہ سادہ فکری ہے جس کا شکار ہمارے حریری صاحب نظر آتے ہیں۔

دعوی بڑا ہے علم ریاٖضی میں آپ کو
طول شب فراق ذرا ناپ دیجیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).