کھیل کود نعمت سے کم نہیں


جب ہم بچپن اور جوانی کے دنوں تک کھیل کود میں حصہ لیا کرتے تھے تو اس بات کا پتہ ہی نہیں تھا کہ کھیل کود سے ہماری صحت پہ کتنا مثبت اثر پڑتا ہے۔ گرمیوں میں بہتے دریا میں تیراکی کرنا روز کا مشغلہ تھا۔ مشکل حالات کے باوجود موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی خالی کھیتوں کو میدان بنا کر والی بال کھیلنا تو جیسے جنون تھا۔ جب گھر والے ہمیں میدان میں دیکھتے تو دوڑیں لگ جاتی۔ سب سے آگے ہم، پیچھے کبھی والد تو کبھی والدہ۔ اور ہم جس کے ہاتھ لگتے اس کی چھڑی اپنی کسر پوری کرتی۔ اور ہم کھیل کے میدان کو آنسووں اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے۔ لیکن ہم پر کبھی بھی اس مار پیٹ کا اثر نہیں ہوا۔ وقت نکال کے سب کو چکما دے کر میدان میں پہنچ ہی جاتے تھے۔

مگر یہ سب وقتی تھا جس کی وجہ سے ہم کسی بھی کھیل میں ماہر نہیں ہوئے۔ کیونکہ نہ تو ہمیں کھیل کود کی افادیت کا پتہ تھا اور نہ ہی گھر والوں کو اس کی اہمیت کا۔ پھر بھی جسم چست اور تندرست رہتا تھا۔ اونچی اونچی پہاڑیاں بھی دوڑتے ہوئے سر کرلیا کرتے تھے۔

پھر وقت گزرا اور آہستہ آہستہ وہ شوق ختم ہوتے گئے۔ خود کو ذمہ دار فرد دکھانے کے چکر میں سب پس پشت ڈال دیا۔ صبح گھر سے دفتر اور شام کو دفتر سے گھر اور دن کو تیل بھرا کھانا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پیٹ نے اپنا محل وقوع تبدیل کرنا شروع کردیا۔ تھوڑی چڑھائی چڑھتے ہی سانس اپنے پورے زور کے ساتھ ایسے پھولتی جیسے پھیپھڑے بھی ان کے ساتھ باہر نکل آئے ہوں۔ آہستہ آہستہ جسم بھی چڑھ پڑھ کی آوازیں دینے لگا۔ اب تو نوبت یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد پیٹ میں ایسے غٹر غوں غٹر غوں کی آوازیں آتی ہیں جیسے دو چڑیاں پیٹ میں محبت کا کھیل کھیل رہی ہو۔

یہ سب دیکھ کے اکثر میرے والدین مجھ سے کہتے ہیں۔ کہ پیارے تو تھوڑی ورزش کرلیا کر۔ صبح اٹھ کے تھوڑی دوڑ لگا۔ صبح نہیں تو پھر شام کو تھوڑی ورزش کر ایسے تو آپ کی صحت بگڑ جائے گی۔ کبھی کبھی والدہ کہتی ہیں کہ پیارے اپنی شادی میں یہ پیٹ لے کر جائے گا۔ دیکھ بڑھ رہا ہے۔

یہ باتیں سن کر کبھی کبھی جذبہ ورزش سر چڑھ کے بولنے لگتا ہے تو جذباتی انداز میں چھوٹی پہاڑی تھوڑے تیز قدموں سے چلنا شروع کردیتا ہوں۔ تھوڑے قدم کی ورزش کے ساتھ ہی سانسیں پھولنے لگتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ تب میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ان کھیلوں میں کسی ایک کھیل کو بھی زندگی کا حصہ بنایا ہوتا تو آج صحت کے یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔ نہ پیٹ کو اپنی جگہ سے سرکنا پڑتا اور نا ہی پرانے کیسٹ کی طرح دھن سنانے لگتا۔

لیکن آج کل حالات مختلف ہیں۔ اسکولوں میں باقاعدہ کھیلوں کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔ ہر طالب علم کسی نہ کسی کھیل کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہمیں تو وقت نہیں دیا جاتا تھا مگر آج کل کے بچوں میں دلچسپی نہیں ہے۔ زیادہ نمبر لانے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کشمکش میں بچپن میں ہی بوڑھے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بچوں کے لئے کھیل کود کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ اسی لئے آج بچے بہت ہی کمزور اور لاغر نظر آتے ہیں۔

اسکولوں میں کھیلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے باوجود بہت ہی کم بچے ہیں جو کھیل کو ایک پروفیشن کے طور پر اپناتے ہیں۔ جس کی وجہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود ہمارے نوجوان کھیلوں کی دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ پہلے کی نسبت اب جسمانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر چوتھے بچے کی نظر کمزور ہے۔ اس کا جسم یا تو بہت کمزور دکھائی دیتا ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ موٹا۔ اب جوانوں میں بھی ہارٹ اٹیک کے کیسز پہلے کی نسبت زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بچے، جوان، بوڑھے سب کھیلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیں۔

اسی حوالے سے میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کریں۔ کھیلوں کو ان کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑتے جسم کو دیکھ کر افسوس نا کرنا پڑے۔ صحیح طور پر رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کو آزادانہ طور پر کھیلوں میں حصہ لینے کی آزادی بھی دیں۔ بچوں کی ذہنی پرورش کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ ان کی جسمانی پرورش کے اوپر بھی توجہ دیں۔ ان کو یہ بتائیں اور سمجھائیں کہ کھیل کود ان کے لئے فائدہ مند ہے۔ وقت مقرر کرکے کھیل کو زبردستی ان کی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ انہیں آنے والے وقتوں میں کم از کم اپنی جسمانی بیماریوں سے لڑنا نا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).