آسیہ بی بی کیس کے بارے میں مفتی رفیع عثمانی کا نامکمل مؤقف


 

ملک کے ممتاز عالم دین اور دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی رفیع عثمانی نے ایک کھلے خط میں آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کھل کر بات کی ہے اور یہ قابل قدر نکتہ پیش کیا ہے کہ اگر شواہد اور ثبوتوں کی عدم موجودگی میں ملک کی عدالت توہین رسالت کی ایک ملزمہ کو بری کرتی ہے تو اس کے خلاف ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس خط میں ان کا دوٹوک مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحب ایمان ہیں اور رسول پاک سے ان کی محبت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

 انہوں نے تمام شواہد کو سامنے رکھ کر آسیہ کو بری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی اسلامی فقہ کا اصول بھی ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ جب تک یقینی طور پر یہ طے نہ ہو جائے کہ کسی شخص سے کوئی ایسا جرم سرزد ہؤا ہے جس پر حد جاری کی جاسکتی ہے، اس وقت تک کسی کو سزا کا مستحق نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ حد جاری ہونے کے بعد اس پر عمل درآمد ضروری ہوگا۔ مفتی رفیع عثمانی کا یہ مؤقف ملک میں آسیہ کیس کے معاملہ پر اختیارکیے جانے والے انتہا پسندانہ رویہ اور طرز عمل کے مقابلے میں روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن مفتی صاحب یہ رائے دیتے ہوئے نظرثانی کی اپیل میں فیصلہ کی تبدیلی کا اشارہ دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق مؤقف نہیں ہے۔

 سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعدملک میں سامنے آنے والی لاقانونیت اور حکومت کی بے عملی اور متضاد بیانی نے غیریقینی کی کیفیت پیداکی ہے جس میں انتہا پسند مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ گو کہ وزیر اعظم عمران خان نے 31 اکتوبر کو فیصلہ سامنے آنے کے بعد سامنے آنے والے متعصبانہ اور جارحانہ بیانات پر فوری ردعمل ظاہر کیا تھا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لوگوں کو بھڑکانے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

عمران خان کی اس تقریر کا ملک بھر کے ہوشمند طبقوں نے خیر مقدم کیا تھا اور امید کی جارہی تھی کہ نوعمر حکومت کے پر عزم وزیر اعظم اپنے قول کے مطابق ملک میں نہ صرف امن و امان بحال رکھیں گے بلکہ اشتعال پھیلانے والے عناصر کی گرفت بھی کی جائے گی۔ وزیر اعظم تو یہ تقریر کرنے کے بعد چین کے دورہ پر روانہ ہو گئے لیکن ملک میں تین روز تک لاقانونیت کا راج رہا۔ حیرت انگیز طور پر شر پسند عناصر کا ساتھ دینے کے لئے مٹھی بھر لوگ ہی گھروں سے باہر نکلے لیکن ان کی گرفت کرنے کے لئے امن و امان قائم کرنے والے ادارے منظر نامہ سے غائب تھے۔

تین روز کی بے یقینی کے بعد حکومت نے تحریک لبیک سے ایک ہتک آمیز پانچ نکاتی معاہدہ کرکے دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ بند کروایا۔ یہ معاہدہ ایسے عناصر کے ساتھ کیا گیا تھا جو ملک کے قانون اور کسی ادارے کے اختیار کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے اس معاہدہ کو ملک میں لاقانونیت اور عوامی سلامتی کے نقطہ نظر سے سیاہ دستاویز کہا جاسکتا ہے۔

دھرنا اور احتجاج سے نمٹنے کے لئے حکومت کی پالیسی عمران خان کی تقریر سے متضاد رہی ہے اور اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کے نمائیندوں نے نہ صرف تحریک لبیک سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی معاہدہ کیا، اس کے لیڈروں کی آئین شکن اور ملک دشمنی سے لبریز تقریروں کو برداشت کیا بلکہ اب وہ انہی عناصر کے ساتھ ’مفاہمت اور بات چیت ’ کے ذریعے معاملات طے کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اس طرح حکومت غلط اور درست کے بیچ حد فاصل قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

 وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اب ملک کے دینی رہنماؤں سے انتہاپسندانہ نظریات سے نمٹنے کی جد و جہد میں آگے بڑھنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نظریات کو دلیل سے ہی تسلیم یا مسترد کیا جاسکتا ہے۔ بدنصیبی سے ملک کے معروضی حالات اس مزاج کی عکاسی نہیں کرتے۔ نہ ہی حکومت مذہبی رہنماؤں پر شدت پسندی کے خلاف دلائل دینے کی اپیل کرنے کے بعد خاموش تماشائی بن سکتی ہے۔ ملک میں ایک متفقہ آئین نافذ ہے جس کے تحت سپریم کورٹ سمیت متعدد ریاستی ادارے کام کررہے ہیں۔ حکومت بھی ان میں سے ایک ادارہ ہے جس پر امن و امان قائم کرنے اور قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

حکومت آسیہ کیس میں فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہونے کے بعد کبھی اپوزیشن پر ہنگامہ آرائی کا الزام لگاتی ہے اور کبھی مذہبی رہنماؤں کو ان کی ذمہ داری یاد دلواکر مذہب کے نام پر سیاست سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور لوگوں کی حفاظت کے معاملات غیر متنازعہ امور ہیں۔ کسی بھی اختلاف کے بغیر حکومت پر انہیں یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

 حکومت یہ فرض پورا کرنے کی بجائے انتہا پسندوں کا غصہ کم کرنے اور خود دوسروں سے بڑھ کر مذہبی روایت کی ترویج کا اعلان کرکے دراصل اس بنیادی سوال کا سامنا کرنے سے گریز کررہی ہے کہ سپریم کورٹ ہی نہیں کسی بھی عدالت کے فیصلہ کے بعد کیا کسی فرد، گروہ اور مذہبی لیڈروں کو یہ حق تفویض کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف رائے کا اظہار کرنے کے لئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو بھی قانون شکنی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کو اس اصول کو رہنما بنا کر واضح اور دوٹوک حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ تب ہی ملک میں مکالمہ اور دلیل کا مزاج فروغ پاسکتا ہے۔

 خوش قسمتی سے جو کام حکومت کرنے میں ناکام رہی ہے مفتی رفیع عثمانی نے قوم کے نام ایک کھلے خط میں کسی حد تک اس کی تلافی کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اگرچہ مفتی صاحب کا مؤقف بھی اس حوالے سے سب سوالوں کا جواب دینے اور توہین مذہب کے سوال پر ملک میں پیدا کی گئی ہیجان خیز صورت حال کو مسترد کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہؤا ہے۔ ایک طرف اگر یہ بات قابل قدر ہے کہ ملک کے ایک ممتاز عالم دین نے انارکی اور انتشار کے خلاف بات کی ہے اور سپریم کورٹ کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ وہ کسی معاملہ میں حتمی فیصلہ دینے کی مجاز ہے اورمسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ عدالت کے احکامات کو تسلیم کریں کیوں کہ یہی شریعت اور اصول فقہ کا تقاضہ ہے۔

 تاہم وہ اپنے خط کا آغاز ہی اس انتباہ سے کرتے ہیں کہ ’ اگر سپریم کورٹ کی نظر ثانی کے بغیر آسیہ مسیح کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا تو کچھ نہیں پتہ کہ پاکستان میں کتنا بڑا طوفان اُٹھے گا‘۔ گویا مفتی صاحب کے نزدیک بھی اصل معاملہ یہ نہیں ہے کہ ملک میں ایک عدالتی فیصلہ کی مخالفت میں اسے مسترد کرنے اور ایک بے گناہ کو بہر صورت سزا دینے کے لئے فضا تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ یہ اندیشہ زیادہ بڑا ہے کہ کہیں آسیہ ملک سے باہر نہ چلی جائے۔

 گویا مفتی صاحب بھی شرعی اصول بیان کرتے ہوئے اس مقبول رائے کے دباؤ کو قبول کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ سے سہو ہوئی ہے اور اب اس کا تدارک صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ سپریم کورٹ آسیہ بی بی کو نظرثانی کی اپیل میں قصور وار ٹھہرا کر موت کی سزا سنا دے جس کے بعد مفتی صاحب کے بقول ’ سپریم کورٹ اگرسزا برقرار رکھتی ہے تو لازم ہے کہ مجرمہ کو قتل کریں، اس کے اندر سستی کرنا ہمارے لئے حرام ہو گا‘۔

 اس تاکید کے بعد شبہ کا فائدہ ملزم کو دینے کا حوالہ دینے کا اصول بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ مفتی رفیع عثمانی بعض دیگر مذہبی رہنماؤں کے برعکس یہ تو مانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن وہ آسیہ کیس میں اپنی مرضی کا لارجر بنچ بنوانے پر بھی اصرار کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں نظرثانی کے معاملہ میں ایک طریقہ کار مقرر ہے۔ عام طور سے وہی بنچ نظر ثانی کی اپیل سنتا ہے جس نے پہلے فیصلہ دیا ہوتا ہے اور کوئی قانونی سقم سامنے آنے کی صورت میں اسے تبدیل کرنے کا مجاز بھی ہوتا ہے۔

 عام طور سے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں تمام پہلوؤں پر احتیاط سے غور و خوض کے بعد حکم صادر ہوتا ہے اس لئے نظر ثانی کی اپیل شاذ و نادر ہی قبول کی جاتی ہے۔ مفتی صاحب ملکی قانون و ضابطہ کو تسلیم کرتے ہوئے اسی سانس میں آسیہ کیس میں اس سے استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں جو ناقابل فہم اور نظام پر بالواسطہ عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ کسی مدعی کو کس شرعی اصول کے تحت یہ حق دیاجاسکتا ہے کہ وہ جج بھی اپنی مرضی کے مقرر کروائے؟

 مفتی رفیع عثمانی نے اپنے خط میں آسیہ کا اصل نام آسیہ بی بی یا آسیہ نورین لکھنے کی بجائے آسیہ مسیح لکھنا ضروری سمجھا ہے۔ اس رویہ کی شرعی وجہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں لیکن بادی النظر میں اسے کسی اقلیتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تعصب کا نام دیا جائے گا جو کسی عالم دین کو زیب نہیں دیتا۔ آسیہ کیس کے حوالے سے شبہ کا فائدہ ملزم کو دینے کے لئے بھی مفتی صاحب نے چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کی حد کا ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے حالانکہ پاکستان سمیت دنیا کے متعدد مسلمان ملکوں میں یہ سزا کالعدم قرار دی جاچکی ہے۔

 سپریم کورٹ کے فیصلہ کو صائب اور مدلل مانتے ہوئے مفتی رفیع عثمانی یہ شرعی اصول بیان کرتے ہیں کہ اسلامی فقہ میں شبہ کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔ تاہم انہوں نے اسلام کے قانون شہادت کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا جس میں کسی تنازعہ میں عورتوں کی گواہی کے حوالے سے سخت شرائط عائد ہیں۔ اسی طرح یہ کھلاخط ملک میں توہین مذہب کے معاملات میں ہونے والی نا انصافیوں، اس حوالے سے جھوٹے الزام لگانے والوں کی سزا اور عدالتوں کے حتمی حق فیصلہ کے بارے میں بھی خاموش ہے۔ حالانکہ توہین مذہب کے قوانین کے حوالے سے جذباتی دلائل دیتے ہوئے علمائے دین کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ کسی پر توہین کا جھوٹا الزام لگانا کتنا بڑا جرم اور گناہ ہے اور اس کی شریعت میں کیا سزا مقرر ہے۔

 بہر حال مفتی رفیع عثمانی نے شبہ کی صورت میں ملزم کو آزاد کرنے کا مؤقف اختیار کرکے ملک میں ’گستاخ رسول کی سزا۔ سر تن سے جدا‘ جیسے غیر منطقی اور جذباتی ماحول میں معقول اور مدلل بات کرنے کی کوشش کی ہے، جس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں وزیر اطلاعات کی تجویز کے مطابق ’نظریات کی جنگ کو ہتھیاروں کی بجائے دلائل سے لڑنے‘ کی روایت کا آغاز ہو سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali