کراچی میں ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب جامعہ قانون کی لاقانونیت


پہلے لاقانونیت کا بازار گرم ہوا تو شہر میں “جنگل کا قانون ” نافذ کرنے کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ پھر لاقانونیت انتہا کو پہنچی تو کہا گیا کہ “سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے”۔ اور اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انتہا کی حدوں کو پھلانگ کر بہت ڈھٹائی سے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کی نئی مثال وزیراعلیٰ ہاوس کراچی سے چند فرلانگ کے فاصلے پر چوہدری خلیق الزماں روڈ پر قانون کی اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے طاقتور قبضہ مافیا کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی کا آفس بنانے کے لیے پہلے بچیوں کے پرائمری اسکول کی عمارت کو تصرف میں لایا گیا۔ پھر عمارت کے سامنے علاقے کے واحد برساتی نالے پر تجاوازت قائم کر کے پارکنگ بھی تیار کر دی گئی۔ اور اب مرکزی شاہ راہ کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے بنی فٹ پاتھ کو گھیر کر پیدل چلنے والوں کو ایک اور مصیبت میں ڈال دیا گیا کہ دوڑتی بھاگتی سڑک پر چل کر خود کو خطرے میں ڈالیں۔ یا فٹ پاتھ پر بنے پتھروں اور ان پر بیٹھی قبضہ مافیا سے لڑجھگڑ کر اپنا رستہ بنائیں۔

طرفہ تماشہ یہ کہ اب بچیوں کے اسکول میں مزید تعمیرات کر کے ان کو کھیل کے چھوٹے سے میدان سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

قانون کی جامعہ کے اس دفتر کے بننے سے گرلز پرائمری اسکول کی بچیوں اور اساتذہ کے ساتھ ان کے والدین کو بھی سڑک پر پھینک دیا۔ لا یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے اس جگہ نہ صرف ٹریفک کے مسائل سنگین ہو گئے بلکہ حکومتی ادارے کی جانب سے تجاوزات قائم کر کے دیگر قبضہ کرنے والوں کے لیے بھی کام آسان کر دیا۔

اس تمام صورت حال کا نتیجہ اب تک یہ نکلا ہے کہ اس لا یونیورسٹی کے قرب و جوار کے علاقوں میں تجاوزات قائم کر کے جھینگے مچھلی سے بنی بریانی پیچنے والوں، بار بی کیو، بن کباب، پان کی دکان اور لمکا ڈرنک فروخت کرنے والے بے شمار کیبن لگا کر قیمتی زمین پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی نئی یونیورسٹی بنانے کا سارا منصوبہ کسی قانونی کارروائی سے گزر کر شروع کیا گیا۔ کیا اس مںصوبے کے لیے متعلقہ محکموں سے این او سی یا اجازت نامے لیے گئے۔ یا سارا ڈنگ ٹپاؤ کام چلاؤ پالیسی اختیار کر کے اپنا مقصد پورا کیا گیا۔ اس پر کوئی جواب ان محکموں سے نہیں ملا۔

کچھ اسی طرح کی حالت کلفٹن کے دیگر علاقوں، شون سرکل سے بوٹ بیسن اور دیگر میں بھی عام دکھائی دے رہی ہے۔

حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے میئر کراچی وسیم اختر کو کراچی سے تجاوزات ختم کرنے اور فٹ پاتھ، سڑکوں، پارکوں، کھیل کے میدانوں سمیت جگہ جگہ قائم تجاوزات کے خاتمے کا ٹاسک دیا ہے جس میں انہیں عدلیہ کی بھرپور حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔

اب یہ میئر کراچی پر ہے کہ وہ چوہدری خلیق الزمان روڈ پر قائم قانون کی جامعہ کی لاقانونیت پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کرتے ہیں یا نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).