کراچی پریس کلب اور کپتان اجندر سنگھ بتالیہ کے کمپاس کی غلطی


کراچی پریس کلب کی پریس ریلیز کے مطابق 8 نومبر کو رات ساڑھے دس بجے اچانک سادہ لباس میں درجنوں مسلح افراد نے گھس کر صحافیوں کو ہراساں کیا اور مختلف کمروں، کچن، عمارت کی بالائی منزل اور اسپورٹس ہال کا جائزہ لیا اور زبردستی موبائل کیمرے سے کلب کے کے مختلف حصوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ پریس کلب کے اراکین نے ان سے سوال جواب کیے تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور تیزی سے فرار ہو گئے۔ یہ افراد نصف درجن کے قریب گاڑیوں میں آئے تھے اور ان کے ہمراہ پولیس موبائل بھی تھی۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس قانون نافذ کرنے والے ادارے کے مسلح عہدیدار جی ایس ایم لوکیٹر کی غلطی کی وجہ سے کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے تعلق رکھنے والے پولیس عہدیداران جی ایس ایم لوکیٹر کی مدد سے ”نہایت مطلوب ہدف“ کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے تھے کہ مشتبہ شخص کا موبائل ان کے رابطے میں آیا اور وہ پریس کلب میں گھس گئے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ بعد میں وہ ایک قریبی گھر سے حراست میں لے لیا گیا۔

اب اس پر صحافی بلاوجہ ہی احتجاج کر رہے ہیں کہ ساٹھ برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری ایجنسی کے مسلح اہلکار اس طرح پریس کلب میں گھسے ہیں حالانکہ کوئی بھی ذی شعور شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ نہایت نیک نیتی سے کیا گیا تھا۔ گئے تو وہ سچ مچ کسی خطرناک دہشت گرد کو پکڑنے ہی ہوں گے، مگر جب سمت نما کی غلطی سے پریس کلب پہنچ گئے تو انہوں نے سوچا ہو گا کہ لگے ہاتھوں صحافیوں کو تحفظ ہی فراہم کر دیا جائے۔ تحفظ دینے میں جو جو صحافی رکاوٹ بنا، اس رکاوٹ کو عظیم تر صحافتی مفاد میں مار پیٹ کر ہٹا دیا گیا۔

کچن میں وہ یہ دیکھنے گھسے ہوں گے کہ صحافیوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا فراہم کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ اسپورٹس ہال میں جانے کا مقصد یہی سمجھ آتا ہے کہ ادھر صحافیوں کو کھیلتے ہوئے چوٹ لگنے کا اندیشہ تو نہیں ہے؟ جہاں تک موبائل کیمرے سے زبردستی تصاویر بنانے کا معاملہ ہے تو وہ بھی سمجھ آتا ہے۔ آج کل سیلفی کا زمانہ ہے۔ ان اہلکاروں کو یکلخت اتنے سارے مشہور مشہور سے میڈیا والے دکھائی دیے ہوں گے تو ان کا دل مچل مچل اٹھا ہو گا کہ ان کے ساتھ سیلفی لیں اور بعد میں اپنے گھر والوں اور احباب کو دکھا دکھا کر شیخیاں بگھاریں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ صحافیوں کے سوال جواب کرنے پر وہ فرار کیوں ہو گئے، تو پہلی نظر میں یہ ایک مشکوک سی بات لگتی ہے۔ لیکن تفکر اور عمیق غور و فکر کیا جائے تو یہ بہت سادہ سا معاملہ ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی شاہزیب خانزادہ نے ڈی جی نیب پنجاب سے جو سوال جواب کیے تھے، انہیں دیکھنے کے بعد کون سا سرکاری افسر صحافیوں کے سوالات سے خوفزدہ نہیں ہو گا؟ بچارے ڈر کر بھاگ گئے۔

چند “شکی القلب” افراد یہ پوچھیں گے کہ کیا اتنے بڑے، نمایاں اور پرانے پریس کلب کا ان سی ٹی ڈی والوں کو پتہ نہیں تھا جو سمت نما کی غلطی سے اس میں گھس گئے؟ دیکھیں یہ ایک نہایت تکنیکی معاملہ ہے اور ریکارڈ پر ہے کہ اس سے قبل بھی سمت نما کی غلطی کی وجہ سے ایک ذمہ دار افسر ایک نائٹ کلب میں جا چکے ہیں۔

کرنل محمد خان اپنی سرگزشت ”بجنگ آمد“ میں لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے عروج پر کپتان اجندر سنگھ بتالیہ بصرے کی چھاؤنی سے نائٹ ٹریننگ کی غرض سے بکتر بند گاڑی لے کر نکلے تو کمپاس کی غلطی کی وجہ سے شہر میں واقع کیبرے پہنچ گئے۔ وہ ادھر غالباً کیبرے کی غیر مسلح اور مکمل نہتی لڑکیوں کو دیکھ کر ان کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر چند گھنٹے رک بھی گئے۔ واپسی پر ان کے انگریز میجر نے شکایت کر دی تو ان کی فوجی عدالت میں پیشی ہو گئی۔

انہوں نے کورٹ کو نائٹ ٹریننگ کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور اپنے کمپاس کی غلطی کی نشاندہی کی کہ اس نابکار آلے کی غلطی کی وجہ سے ان کی بکتر بند گاڑی کیبرے جا پہنچی تھی۔ کورٹ نے کپتان اجندر سنگھ بتالیہ کو نیا سمت نما مہیا کرنے کا حکم دے کر چارج ڈسمس کر دیا۔ اب اگلی رات کپتان صاحب ٹینک پر اپنی نائٹ ٹریننگ کر رہے تھے کہ وہ بھی غلطی سے انہیں لے کر کیبرے جا پہنچا۔ اس مرتبہ میجر صاحب نے معاملہ فہمی سے کام لیا اور ٹینک کی غلطی کی سزا انہیں نہیں دی۔

اب خود سوچیں کہ جنگ عظیم کا عروج ہے، ایک ذمہ دار فوجی افسر اپنے سمت نما کی غلطی کے سبب اپنی بکتر بند گاڑی میں نائٹ کلب پہنچ جاتا ہے، تو پھر کراچی کے سی ٹی ڈی والوں کے باب میں بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ بھی سمت نما کی غلطی کی وجہ سے ہی پریس کلب جا پہنچے تھے اور صحافیوں کو تحفظ دینے کی نیت سے ہی انہوں نے ادھر صحافیوں کی چھان پھٹک کی تھی۔ ورنہ ہم تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان صحافیوں کے لیے محفوظ ترین ملک ہے اور ادھر کسی بھی صحافی کو جان و مال کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور ادھر صحافیوں کا روزگار تک بالکل محفوظ ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar