ڈونکی راجہ اور ڈالر کنگ !


جیو فلمز نے جب سے اپنی مووی ’ڈونکی کنگ‘ کی ریلیز کا اعلان کرتے ہوئے اس کا پہلے ٹریلر جاری کیا تب سے ہی سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچی ہوئی تھی کہ فلم کی ریلیز کے بعد مزید سوشل میڈیا پر سیاسی جگتیں بن گئیں۔ پہلے اس ٹریلر کو صحافی سمیع ابراہیم نے موجودہ حکومت سے مماثلت دیتے ہوئے بول چینل پر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ موجودہ حکومت کے بارے ہے اور عمران خان کو اس مووی میں ڈونکی کنگ سے مماثلت دیتے ہوئے لومڑی کو اسٹیبلشمنٹ کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔

پہلی نظر میں ٹریلر دیکھیں تو یہ مووی موجودہ سیاسی منظر نامے سے بے حد مشابہت رکھتی دکھائی دیتی ہے جس کا ریلیز سے پہلے، کا خصوصی شو دیکھنے کے لئے گزشتہ دنوں وفاقی ریلوے وزیر شیخ رشید بھی چند بچوں کے ساتھ جیو کی درخواست پر سینما پہنچے اور اس پہلی پاکستانی کارٹون فلم کی بے حد تعریف کی اس میں آوازیں دینے والوں میں ہمارے ملک کے نامور اداکار شامل ہیں۔

ادھر سے فلم ریلیز ہوئی تو رانا ثنا اللہ عوامی احتجاج میں اس کے پوسٹر پکڑے عمران خان کو ڈونکی کنگ سے مماثلت دیتے سڑکوں پر نظر آئے تو کہیں مریم اورنگزیب یہ کہتی دکھائی دیں کہ اس حکومت کی پوری کابینہ کو ڈونکی کنگ مووی دکھائی جائے۔ دوسری طرف گزشتہ دنوں ڈالر نے یک دم اڑان بھری تو اسٹاک ایکسچینج کے در و دیوار ہلنے لگے۔ جب حکومتی وزیر ڈالر کی اڑان کی پیشین گوئیاں کریں گے تو غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے جس سے تجارتی حلقوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

ضمنی الیکشن سے پہلے حکومت نے خود اپنے لگائے آئی جی کو ایک ہی مہینے بعد ٹرانسفر کرنے کا پروانہ پکڑا دیا جس پر ہزیمت تب اٹھانا پڑی جب الیکشن کمیشن نے اس حکم نامے کو ضمنی انتخابات تک معطل کر دیا۔ اس پر نہلے پر دھلا یہ ہوا کہ حکومت نے آئی ایم ایف میں جانے کا اعلان کر دیا جس پر ماضی قریب میں عمران خان فرط جذبات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر میرے وزیر اعظم ہوتے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو میں خود کشی کر لوں گا اوراب سوشل میڈیا پر ہر طرف ڈونکی کنگ کا لقب دے کر خوب تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔

اس مووی کے گانے ”آزاد نگری ڈونکی راجہ“ کو بگاڑ کر موجودہ حکومت کا خوب ٹھٹھا اڑایا جا رہا ہے مگر میرے نزدیک آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ درست ہے بلکہ یہ فیصلہ دو مہینے پہلے جیسے ہی یہ حکومت میں آئے تھے تب ہی اس کا آغاز کر دینا چاہیے تھا۔ اس پر تاخیر اور ابتدا میں ہی معاملات ہاتھ سے نکلنے سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی معیشت کے معاملے پر ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔ وہ اسد عمر جنہیں چھ مہینے پہلے نوید سنا دی گئی تھی کہ آپ وزیر خزانہ ہوں گے ان کی تیاری حکومت بننے کے بعد فوری نظر نہیں آ رہی۔

لے دے کر سعودیہ سے ملنے والی امداد کو غنیمت سمجھا جا رہا اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ پہلی حکومت ہے جو قرض ملنے پر عوام کو مبارکباد دے رہی ہے۔ یعنی ”قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں، رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن“۔ حکومت کو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ اسی طرح کی ضرورت پر پہلے والی حکومت کو بھی اسی طرح آئی ایم کے پاس جانا پڑا۔ اس کے علاوہ اب عام ایکسپورٹرپر ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کی باتیں کی جا رہی ہیں جو معیشت کی رہی سہی کمر بھی توڑ دیں گی۔ ایکسپورٹ جتنی زیادہ ہو گی اس قدر ملکی معیشت مضبوط اور توانا ہو گی۔

اس بات کو حکومت میں شامل وزیراعظم کے مشیر ماہر معاشیات سمجھے جانے والے عبدالرزاق داود اور ان کی ٹیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے کسی برے ولن کی طرح ڈالر نے جس طرح ہمارے ملک میں انٹری ماری ہے اس نے ہمارے وزیر اعظم اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر کی پرانی باتیں یاد دلا دی ہیں جن میں اب کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی قرضے بھی بڑھ جاتے ہیں اور تب آج کے وزیر خزانہ اس وقت کی مہنگائی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے غم میں مبتلا تھے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس ساری صورتحال کو قابو کرے اور عوام کی آواز بنے جنہوں نے ان ووٹ دے کر اعلی ایوانوں میں بھیجا ہے۔

میرا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہماری حکومت آئی ایم ایف، سعودی عرب، چائنہ اور یو اے ای سے اگر فنڈ اور قرضے کی رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر وہ اس رقم کا بہتر استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر سکتی ہے جو اس کی 100 دن کی پالسیوں کو مزید واضح کرنے میں مدد دے گی۔ اگر اس حکومت نے پرفارم کر دیا جس کی امید ان کے ابتدا کو دیکھتے ہوئے کم نظر آتی ہے تو شاید یہ اپنے پانچ سال پورے نہ کر سکے۔

وزیر اعظم عمران خان اپنا ایک فیم رکھتے ہیں اور کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد وزیر اعظم کسی نہ کسی طرح بنے ہیں اس لئے مہنگائی کا طوفان آنے کے بعد بھی لوگ ایڑیاں اٹھائے دیکھ رہے ہیں کہ شاید تین مہینے یا چار مہینے بعد یہ حالات نہ رہیں۔ لیکن مجھے ڈر ہے ہمیں ان مہنگائی کے حالات کا مزید عادی نہ بنا دیا جائے۔

ایک واقعہ مجھے یاد آیا کہ لڑکی کی شادی کسی مچھلی فروش کے گھر ہو گئی تو شادی کے بعد پہلے دن جب وہ سو کر اٹھی تو کہنے لگی یہاں تو بو ہی بو ہے۔ اٹھتے بیٹھتے اسی دکھ کا اظہار کرتی کچھ دن گزرے تو وہ عادی ہونا شروع ہو چکی تھی اور ایک دن وہ مکمل طور پر اس ماحول کو اپنا چکی تھی۔ اب وہ کہنے لگی دیکھا میں آئی تو بو ختم ہو گئی۔ جب اس کی ساس نے یہ بات سنی تو کہنے لگی ”پتری بو ختم نئیں ہوئی تیری بو ماری گئی اے“

اسی طرح کہیں عوام کو اس مہنگائی کا عادی نہ بنا دیا جائے۔ بو تو پھر برداشت ہو سکتی ہے اور ٹوائلٹس کی صفائی کی مہم بھی زور و شور سے چلائی جا سکتی ہے مگر مہنگائی کے سونامی کے سبب غریبوں کی خودکشیاں اور معاشرے میں انتشار برداشت نہیں ہو سکے گا۔

سب کچھ گزشتہ حکومتوں پر کب تک ڈالا جائے گا۔ گورنر ہاؤس کھولنا خوش آئند بات ہے مگر غریب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو آپ کی پہلی ترجیح اس طرف ہونی چاہیے۔ تجاوزات گرانے کے نام پر غریبوں کی زمینوں پر سرکاری قبضے نہیں ہونے چاہئیں کہ گھر، دکانیں گھرانے سے پہلے انہیں کوئی متبادل دیا جائے تاکہ لوگوں کی روزی روٹی چلتی رہے اور پیٹ پلتا رہے چونکہ سرکار کے علاوہ ایک قانون اللہ کا بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).