ہسٹیریا ایک جنسی مرض ہے، روحانی عارضہ یا نفسیاتی الجھن؟


ہمارا مسائل سے نپٹنے کا عمومی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہم مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں یا پھر جھنجھلا کر دوسروں پہ غصہ نکالتے ہیں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ مگر کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں آپ نہ تو مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں نا اس کا غصہ کسی پہ نکال سکتے ہیں۔ مثال لیجیے کہ کسی کا کوئی بہت قریبی عزیز کسی خوفناک حادثے میں چل بسا۔ یا ایک فوجی جو محاذ جنگ پہ ہے یا ایک بہو جس کے سسرال والے ظالم بھی ہیں اور میکے میں کوئی سپورٹ کرنے والا بھی نہیں۔ دیکھیے انتقال کی صورت میں نا آپ مرنے والے کو واپس لا سکتے ہیں نہ کسی سے جھگڑا کر سکتے ہیں کہ میرا عزیز کیوں مرا۔ اسی طرح محاذ جنگ پہ موجود فوجی کو پتا ہے کہ اسے لڑنا ہے مگر جنگ ختم کرنا اس کے ہاتھ میں نہیں۔ اس کے سامنے اس کے ساتھی مر رہے ہیں اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو مار رہا ہے جس سے اس کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں ان میں کبھی کبھی عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی حب الوطنی یا احساسِ ذمہ داری اور انسانیت کے درمیان ایک ایسی چپقلش شروع ہوجاتی ہے جو اسے انتہائی شدید ذہنی دباؤ کا شکار کردیتی ہے۔ اسی لیے جنگی محاذ سے لوٹنے والے فوجیوں کو جس ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے وہ کسی بھی دوسرا حادثہ سہنے والوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری مثال پہ آئیں تو ایک مجبور بہو جو ہر لحاظ سے سسرال میں کمزور حیثیت کی حامل ہے وہ نا ماحول سے چھٹکارا پا سکتی ہے نا کسی سے لڑ کر یا کسی پہ چیخ چلا کر اپنا غصہ نکال سکتی ہے
اوپر بیان کی گئی وجوہات کنورژن ڈس اورڈر کی بنیادی وجوہات ہیں یعنی ایک شخص جو اپنے مسائل میں خود کو شدید پھنسا ہوا محسوس کرتا ہو اور شعوری طور پہ کوئی حل نکالنے سے قاصر ہوتو اس کا ذہن لاشعوری طور پہ ایسے حل نکالنے کی کوشش شروع کردیتا ہے جس کی مدد سے وہ ایسی صورت حال سے نکل سکے مثلا کسی پیارے کی تکلیف دہ موت اپنے سامنے دیکھنے کے بعد بولنے، دیکھنے یا چلنے سے معذور ہوجانا۔ ایسی صورت حال میں گھر کا ماحول اس نئے مسئلے سے یک لخت بدل جاتا ہے اور سب کی توجہ اس نئے مسئلے کی طرف ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر ایسا تب ہوتا ہے جب وہ شخص کسی نا کسی حوالے سے اس حادثے کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہے اور لاشعوری طور پہ خود کو سزا دیتا ہے۔
اگر ہم محاذ جنگ کی مثال پہ آئیں تو جنگ عظیم اوّل اور دوئم میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے جس میں فوجی نظر کمزور ہونے، ہاتھ پیر مفلوج ہوجانے یا کسی مخصوص وقت اندھے پن کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ مکمل معائنے کے باوجود بھی کوئی جسمانی بیماری تشخیص سامنے نا آتی۔ یہ کنورژن کے بارے میں پیش رفت کا اہم موقع تھا جہاں عمومی نظریئے کے برعکس سارے مرد ذہنی دباؤ کی وجہ سے جسمانی مسائل کا شکار ہورہے تھے۔ ان کا شعور انہیں محاذ جنگ پہ رہنے پہ مجبور کرتا اور لاشعور اس تکلیف دہ ماحول سے نکالنا چاہتا تھا۔ لاشعور کے لیئے جسمانی طور پہ مفلوج ہونا مسئلے کا ایک باعزت حل تھا۔ آج بھی شدید جنگی علاقوں میں موجود فوجی ان مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔


اب آتے ہیں تیسری مثال کی طرف یعنی گھریلو مسائل کا شکار افراد خاص کر خواتین جنہیں اپنی زندگی کے فیصلوں پہ کوئی اختیار نہ ہو، نہ ہی ان کو اتنا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہو کہ وہ اپنے مسائل کا موزوں حل نکال سکیں ان خواتین کے پاس اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوچیں ہی نا، اس کا حل وہ بچوں کو ڈانٹ کے، گھر کی بقیہ خواتین سے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑ جھگڑکے نکالتی ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے حل یا ان کے علاوہ ساس بہو کے مشہور زمانہ ہندوستانی ڈرامے دیکھنا اور ان سے اپنی زندگی کو ریلیٹ کرنا، اپنی آرائش میں وقت صرف کرنا یا شاپنگ میں پیسا ضائع کرنا زہنی دباؤ سے نکلنے کے کچھ حد تک شعوری حل ہیں۔ جن میں معاشرتی رویوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے. مگر جب یہ ذہنی دباؤ شعوری برداشت سے سوا ہوجاتا ہے تو دماغ لاشعوری حل نکالتا ہے۔ مسلسل سر میں درد، گردوں میں درد، کسی خطرناک بیماری یعنی کینسر یا دل کی بیماری کی علامات کا ظاہر ہونا یہ سب لاشعوری حل ہیں۔
مگر ہمارے معاشرے کی سب سے اہم علامت کی طرف تو اب تک ہم آئے ہی نہیں اور وہ ہے آسیب زدگی کی علامات۔ بار بار بے ہوش ہوجانا، نامانوس آواز میں باتیں کرنا، غیبی مخلوق کا نظرآنا یہ پاکستان میں کنورژن کی سب سے عام قسم ہے۔ کنورژن کو پہچاننے کے لیے چند اہم باتیں یاد رکھیں پہلی بات کنورژن کا دورہ مرگی کے دورے سے کافی مشابہت رکھتا ہے یعنی ایک دم سے ہاتھ پاؤں مڑ جانا، منہ سے جھاگ آنا، گر جانا وغیرہ مگر کنورژن اور مرگی میں واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ مرگی کے دورے میں مریض کو عموما اچانک گرنے کی وجہ سے شدید چوٹیں آتی ہیں۔ پیشاب خطا ہوجاتا ہے اور زبان دانتوں میں آکر کٹ جاتی ہے جبکہ کنورژن میں لاشعور ہوشیار رہتا ہے جس کی وجہ سے گرتے میں شدید چوٹ لگنے کا امکان کم ہوتا ہے اس کےساتھ ساتھ کنورژن کا دورہ ہمیشہ لوگوں کی موجودگی میں اور مریض کے جاگنے کے دوران پڑتا ہے۔ گہری نیند میں، نشہ آور ادویات یا ہائپنوسز کے زیر اثر اس کی علامات ختم ہوجاتی۔


کنورژن کو صحیح طور پہ سمجھنے کے لیے مختلف معاشرے اور ان کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی تک مغربی ممالک میں کنورژن کے ایسے کیسز جو آسیب زدگی کی علامات کےحامل ہوں تقریباََ اتنے ہی تھے جتنے اب مشرقی ممالک خصوصاً انڈیا اور پاکستان میں ہیں مگر جیسے جیسے وہاں مافوق الفطرت مخلوقات کے بارے میں لوگوں کا شعور بڑھتا گیا یہ علامات ختم ہوتی گئیں دلچسپ بات یہ ہے کہ خلائی مخلوق سے ملاقات کے کیسز بڑھ گئے۔ ہاں جسمانی بیماریوں کی علامات کی کیسز اب بھی پائے جاتے ہیں۔
مشرقی ممالک میں آسیب زدگی کی علامات والے کنورژن کے کیسز بہت زیادہ ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کی تعداد پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ یقیناً آپ اس کی وجہ سمجھ گئے ہونگے۔
کنورژن کے علاج میں کچھ اہم باتیں ضرور ذہن نشین کرلیں پہلی بات، مریض جو کر رہا ہے اس سے وہ خود بھی واقف نہیں ہوتا تو کبھی بھی یہ نا سمجھیں کہ مریض آپ کو یا لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ یہ سب اس کے لاشعور کی کارستانی ہے جس سے اس کا شعور بالکل واقف نہیں۔ دوسری بات کنورژن کی تشخیص کے لیے ماہرین سے رجوع کریں تاکہ سب سے پہلے جسمانی تجزیہ کیا جاسکے۔ کنورژن یا مرگی کا حتمی فیصلہ صرف دماغ کا MRI اسکین کروا کر ہی ممکن ہے۔ لہذا کبھی بھی جسمانی چیک اپ کے بغیر نا صرف کنورژن بلکہ کسی بھی ذہنی بیماری کا علاج شروع نا کروائیں جب تک یہ تصدیق نا ہوجائے کہ مریض کو کوئی جسمانی بیماری یا مسئلہ نہیں ہے۔
کنورژن کے علاج کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان مسائل پہ توجہ دی جائے جن کی وجہ سے مریض ذہنی دباو کا شکار ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ذہنی مرض کا علاج جسمانی بیماری ہی کی طرح ہمیشہ ماہر سے کروائیں گھر والوں کی سب سے اہم ذمہ داری ایسی صورت میں یہ ہوتی ہے کہ وہ مریض کا مسئلہ سمجھ کر اس کا ساتھ دیں اور اسے زبردستی صحیح رویہ رکھنے پہ مجبور نہ کریں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے اتنا ہی ناممکن ہے جیسے ایک بغیر ہاتھ والے بندے کا ہاتھ سے کوئی کام کرنا۔ جب تک کہ وہ مکمل صحتیاب نا ہوجائے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima