ہماری زندگی کا اہم حصہ: چائے


ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ہوش سنبھالتے ہی بلکہ یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ ماں کی آغوش سے ہی بچا چائے کی خوشبو سے مانوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ چاہے گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ ہو یا دسمبر کی سرد تھرتھراہٹی ہوائیں، چائے کے ذائقے کے بغیر زندگی ادھوری ہی سمجھی جاتی ہے۔ یہ مشروب ہماری زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسی کے پیش نظر میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کی مختصر تاریخ کو بیان کیا جائے تاکہ ہمیں یہ احساس ہوسکے کہ جس کے بغیر ہماری صبح کا آغاز پھیکا ہوتا ہے وہ ہماری زندگی کا اہم حصہ بنی کیسے۔

اگر ماضی کے صفحات کو پلٹا جائے تو معلوم ہوگا کہ آغاز میں چائے کو بطور دوائی استعمال کیا جاتا تھا۔ ہمالیہ کے جنگلات میں چائے کے پتے ہوتے تھے جسے وہاں کے قبائل شوق سے چبایا کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں فرحت اور سکون کا احساس ہونے لگا۔ ہم بھی اکثر اپنی روز مرہ کے کاموں میں جب تھک جاتے ہیں تو ذہن کو ترو تازہ کرنے کے لیے چائے کی پیالی ضرور پیتے ہیں جس سے ہم میں سکون کے ساتھ توانائی کا بھی احساس ہوتا ہے نتیجتاً ہم اپنا کام بہتر انداز میں کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں پانی کے بعد سب سے زیادہ مقدار میں پیا جانے والا مشروب چائے ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ چائے لوگوں کو آپس میں قریب لانے کا بہترین وسیلہ ہے۔ چائے انسان کے ذہن کے دریچوں کو کھول کر سکون بخش ہواہیں مہیا کرتی ہے جس کی وجہ سے انسانی سوچ خوشگوار و ترو تازہ ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ ماضی میں چائے کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا تھا انہیں سکھا کر گولا بنا کر بھی کھایا جاتا تھا اور ان پتوں کو زمین میں دبایا جاتا تھا جس کی وجہ سے چائے کے فوائد مشہور ہونا شروع ہوگئے اور انہیں صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جانے لگا۔

چین کی قدیم تاریخ کے مطابق 273 ( ق م) میں اتفاقاً گرم پانی میں چائے کے پتوں کے گرنے کی وجہ سے جب اس کا رنگ بدلا تو چینی شہنشاہ شیوونگ نے اس کو چکھا تو اسے اس کا ذائقہ اچھا لگا اور اسے اس قسم کی راحت محسوس ہوئی۔ ابتدائی دور میں سبز چائے کا استعمال ہوتا تھا مگر بعد میں کالی چائے زیادہ پی جانے لگی۔ سترویں صدی میں چونکہ اس کی ابتدا چین سے ہوئی اس لیے اس مشروب کو چائے، شائے اور ٹی کے نام سے پکارا جانے لگا چین سے چائے کا رواج جاپان میں ہوا اور وہ بھی اس کے عادی بن گئے۔

برصغیر میں چائے پینے کا آغاز انگریزوں کے آنے کے بعد ہوا جب انہوں نے سن 1826 میں آسام پر قبضہ کیا تو اس زمین کو چائے کی کاشت کے لیے موزوں پایا۔ سن 1837 اور 1840 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے چائے کے باغات آسام میں قائم کیے جس کی وجہ سے آسام چائے کی برآمد کا مرکز قرار پایا۔ بالخصوص دارجیلنگ کی چائے اپنے خوشبودار ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اب تک چائے صرف انگریزوں کے مخصوص حلقوں میں پی جاتی تھی، برطانوی حکومت نے سن 1920 میں ٹی بورڈ تشکیل دے کے چاے کی تشہیر شروع کی پھر آہستہ آہستہ برِصغیر کے لوگ بھی اس کے عادی ہونے لگے یہاں تک کہ چائے ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گئی۔

دنیا بھر میں بحث و مباحثے کی محافل ہوں، فیکٹریوں اور دفتروں میں کام کی روانی ہو یا تعلیمی سرگرمیاں ہر مقام پر چائے کی پیالی ضرور پی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں چائے کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ جگہ جگہ چائے خانوں کی وجہ سے سماجی گھما گھمی، لوگوں کا آپس میں ملنے جلنے میں اضافہ ہوا اور ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوئی اور لوگوں کے لیے روزگار میں بھی مددگار ثابت ہوئے۔

چائے ہماری جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بھی باعث بنی اسی لیے ہماری صبح اور شام چائے کے بغیر نا مکمل تصور کی جاتی ہے۔ اسی لیے کسی نے خوب کہا ہے کہ جہاں چائے ہوگی، وہاں امید ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).