دریائے گنگا کو کون تباہی سے دوچار کر رہا ہے؟


اے آب رود گنگا اف ری تری صفائی
یہ تیرا حسن دلکش یہ طرز و دلربائی
تیری تجلیاں ہیں جلوہ فروش معنی
تنویر میں ہے تیری اک شان کبریائی

گنگا کا نام آتے ہی ذہن و دماغ میں مختلف قسم کے خیالات اور تصورات گردش کرنے لگتے ہیں مثلا؛ ایک متبرک ندی ایسی مقدس اور پوتر کہ جو دوسروں کو بھی پارس کے پتھر کی طرح خالص کر دیتی ہے۔ قدیم ہندوستان کی سب سے بڑی ندی جو 2 ہزار 510 کلومیٹر ( 1 ہزار 557 میل) طویل ہے۔ ہندوستان کے رسوم و رواج اور تہذیب و تمدن کی محافظ، شاعروں، ادیبوں اور رومان پرور تخلیق کاروں کی دیوی۔ ایک ہمدرد و غمگسار ماں کا تصور جو اپنے بچوں کی خاطر ہر طرح کی تکلیف اور پریشانیوں کو جھیلنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ جمنا کے ساتھ مل کر ایک عظیم اور زرخیز خطہ تشکیل دینے والی ندی۔ ایسی ندی جو شمالی ہند اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے ؛جہاں کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور روئے زمین پر موجود ہر 12 واں شخص یعنی دنیا کی کل آبادی کا 8.5 فیصد گنگا کے کنارے رہتا ہے۔

گنگا کی انہی خصوصیات کی وجہ سے اسے ہر زمانے اور ہر عہد میں اہمیت دی گئی، یہ ماضی عقیدت و احترام کی آماجگاہ رہی تو حال میں بھی اس کے تئیں پائی جانے والی آستھا میں کمی نہیں آئی، خود گنگانے بھی اس عزت افزائی کی قدر کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کے لئے ہمیشہ ہی اپنی باہیں کھلی رکھی، جہاں سے لوگوں نے ہیرے جواہرات اکٹھا کیے ، اس کی ریت چرا کر بڑے بڑے محلات تعمیر کیے ، اس کے پانی سے اشنان کرکے خود کو پاک و صاف اور اپنے گناہوں اور کرموں کو گنگا کے حوالے کیا حتی کہ مرنے کے بعد بھی اسی کی گود میں بہنا پسند کیا اور گنگا نے بغیر کسی اعتراض کے انہیں اپنی لہروں میں جگہ دے دی۔

اس کے باوجود کچھ نے اس کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے گندگی، کوڑا، کچرا یہاں تک کہ بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنی گندگی اور آلائشات گنگا کے حوالے کردیا۔ یہ گنگا کے لئے بڑی تکلیف دہ صورت تھی جسے وہ برداشت نہیں کر سکی۔ انہی وجوہ کی بناء پر جو گنگا کبھی شفاف اور آئینہ ہوا کرتی تھی اب گندگی کا نمونہ بن کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوگئی۔ کبھی کبھی اس کے یہ آنسو کچھ این جی اوز اور حکومتوں تک بھی پہنچتے ہیں، گنگا کے آنسو پوچھنے کی کوششیں بھی کی جاتی ہے لیکن وہ کوششیں تاحال ناکافی ہی ثابت ہوئی ہے۔

کناروں کی بے پناہ آبادی، آلودگی اور ماحولیات کی تباہی گنگا کے تئیں ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بنا پر مقدس گنگا اپنی موت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ گنگا کو آلودگی سے شدید خطرہ لاحق ہے جو گندگیاں اور غلاظتیں ہمالیہ سے سمندر تک کے سفر کے دوران اس کے سپرد کی جاتی ہیں، اُنہیں روک پانے میں ہم سب ایک طرح سے بے بس ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گنگا جب برف پوش ہمالیہ سے نکلتی ہے تو اس کا پانی شفاف ہوتا ہے، مگر جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی جاتی ہے، اس میں شہروں کا کوڑا کرکٹ، کچرا اور زہر آلود صنعتی فضلہ شامل ہوتا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ راستے میں آنے والے شہروں اور قصبوں کے سیوریج کا گندہ پانی بھی مستقل طور پر گنگا کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گنگا میں سیوریج کا روزانہ تقربیاً 4800 ملین لیٹر پانی گرتا ہے، لیکن اب تک جو ٹرٹمنٹ پلانٹ لگائے گئے ہیں وہ محض ایک چوتھائی پانی ہی صاف کرسکتے ہیں۔ مزید تین چوتھائی پانی کی صفائی کے لیے مزید کتنا وقت اور سرمایہ درکار ہے، یہ کہہ پانا مشکل ہے۔

گنگا کی اس قدر اہمیت کے باوجود اس کے ساتھ نا انصافی اور اس کی ناقدر شناشی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے بارے میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی ہیں۔ وہ جنہیں گنگا نے اپنے وسیع دامن میں پناہ دی تھی وہی اب عملی طورپر اس کے دشمن بن گئے ہیں۔

یہ ہمارے لئے افسوس کی بات ہے کہ جس کے ساتھ ہمارا رویہ احسان اور خلوص کا ہونا چاہیے، ہم اس کے ساتھ اس کے بالکل برخلاف رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی آئندہ نسلو ں کی بقاء اور بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں گنگا کے تئیں اپنے رویے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہر ہندوستانی کو گنگا کے ساتھ اسی طرح خلوص اور محبت کا رویہ اپنا نا ہوگا جو گنگا کا صدیوں سے ہمارے ساتھ رہا ہے۔ جس طرح گنگا ہمیں پاک کرتی ہے ہمیں بھی اسی طرح اسے صاف رکھنا اپنے لئے فرض تصور کرنا ہوگا۔ اس کے لئے پہلی فرصت میں ہمیں کوڑا، کچرا اور دوسری گندگی اور آلائشوں کو گنگا کی بجائے کہیں دوسری جگہ ٹھکانے لگانا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تبھی گنگاپاک ہوسکتی بہ صورت دیگر بالکل بھی نہیں۔ ویسے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گنگا کی بقاء میں ہم سب کی بقاء مضمر ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah