کون سا این آر اور اور کیسا این آر او؟


کچھ دنوں سے ملک میں ایک بار پھر این آر او کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ مگر اس بار یہ گونج کسی فوجی ڈکیٹیٹر کی جانب سے نہیں بلکہ ملک کے آئینی وزیراعظم اور ان کے کچھ زعماء کی طرف سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں این آر او کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے، ابھی کچھ سال ہی گزرے ہوں گے جب ایک فوجی ڈکیٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور ان کی جانب سے معزول کیے گئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، ان کے بھائی میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کی بقا سلامتی، ان کے مال متاع کی بحفاظت سعودی عرب منتقلی کے لئے ایک دس سالہ قومی مفاہمتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔

حالانکہ ایک لمبے عرصے تک شریف خاندان اس این آر او سے انکاری رہا، پھر تسلیم کیا کہ پانچ سال کے لئے معاہدہ کیا تھا، آخر این آر او کے مندرجات ظہور پذیر ہونے کے بعد موصوفین اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ ہاں واقعی معاہدہ دس سالہ تھا۔ اس این آر او کے ثالث سعودی عرب، ترکی اور کچھ دوسرے خلیجی ممالک تھے۔ اس کے بعد ایک اور این آر او جنرل پرویز مشرف اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان امریکی ثالثی میں عمل میں آیا۔

امریکی قیادت نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات پر قائل کیا۔ یوں اکتوبر 2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان قومی مفاہمتی فرمان جاری ہوا جس کے تحت 1۔ 1۔ 1986 سے لے کر 12۔ 10۔ 1999 کے دوران سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں پر دائر ہونے والے کرپشن، منی لانڈرنگ، دہشتگردی سمیت 8050 سیاسی مقدمات واپس لے لئے گئے۔

ان مقدمات سے 34 سیاستدانوں کو ریلیف ملا جبکہ 8000 سے زائد مقدمات وہ تھے جو دہشتگردی، منی لانڈرنگ، بلووں، لوٹ مار، ہنگامہ آرائی کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ اس این آر او سے سب سے زیادہ فائدہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہماؤں اور کارکنان نے حاصل کیا۔ متحدہ کی اعلیٰ قیادت سمیت ان کے ہزاروں کارکنان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات این آر او کے تحت واپس لئے گئے اور خطرناک مجرم جیلوں سے رہا کیے گئے جو بعد میں روپوش ہو گئے۔

ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ان گنت مقدمات پاکستانی عدالتوں میں دائر تھے جو ایک ہی جھٹکے میں ختم ہو گئے۔ این آر او کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ دینے سے مشروط کرکے معطل کردیا اور این آر او کے تحت واپس لئے گئے تمام مقدمات فوری طور پر بحال کر دیے گئے۔ این آر او کے تحت ختم کیے گئے دیگر آٹھ ہزار مقدمات جن میں سنگین نوعیت کے الزامات کے تحت درج مقدمات بھی شامل ہیں آج بھی عدالتی کارروائی کے منتظر ہیں۔

اب اگر میاں نواز شریف اور شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ کیے گئے این آر آوز کا موازنہ کیا جائے تو پتہ لگے گا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ کیے گئے این آر او کا فائدا صرف شریف خاندان کو ملا، جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ کیے گئے این آر او کے نتیجے میں ملک میں سیاسی سرگرمیوں اور جمہوریت کی بحالی ممکن ہوئی، جنرل پرویز مشرف وردی اتار کر ایک سویلین حیثیت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس این آر او کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کرپشن مقدمات دوبارہ بحال ہوئے جن کو بھگت کر پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری عدالتوں سے باعزت بری ہوئے، جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت بہت سے پارٹی اکابرین آج بھی ان مقدمات کو بھگت رہے ہیں۔ آج نو سال بعد ملک کے نئے وزیر اعظم عمران خان صاحب ایک بار پھر این آر او کی دھائیاں دیتے نظر آ رہے ہیں، ان کے کچھ وزراء بھی بڑے تواتر سے یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک وزیراعظم صاحب اور زعماء یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان سے آخر یہ این آر او مانگ کون رہا ہے۔

انہیں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے این آر او مانگنے والوں کے نام افشا کرنے چاہئیں۔ قومی اسیمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ ن کے اہم پارٹی رہنماء واشگاف الفاظ میں کسی بھی این آر او سے انکار کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب سے مطالبہ کر تے ہیں کہ وہ این آر او مانگنے والوں کے نام بتائیں یا پھر قومی اسیمبلی کے فلور پر عوام سے غلط بیانی پر معافی مانگیں۔ اب اگر خان صاحب کی جانب سے این آر او کے گردان کی بات کی جائے تو ان کے ساتھ شریکِ اقتدار بہت سے نام ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طور این آر او حاصل کرکے ان کی جماعت میں شامل ہیں یا ان کی حکومت کے اتحادی بنے ہوئے ہیں۔

پرویز الٰہی کے خلاف نیب میں اربوں روپے کے کرپشن مقدمات کی انکوائریاں جاری ہیں، این آر او حاصل کرکے آج اسپیکر پنجاب اسمبلی بنے اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ فہمیدہ مرزا قومی بینکوں سے 84 کروڑ روپے کے قرضے معاف کروانے اور نادھندگی کے الزامات سے این آر او تحت بری الزمہ قرار پا کے وفاقی وزیر بنی بیٹھی ہیں۔ زبیدہ جلال، اربوں روپے کے کرپشن مقدمے میں نیب میں مطلوب ہیں، این آر او کی وجہ سے وزارت کے مزے اڑا رہی ہیں۔

علیم خان، زلفی بخاری، پرویز خٹک سمیت درجنوں لوگ کسی نہ کسی طور این آر او حاصل کرکے آج حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ خود جناب وزیراعظم صاحب نیب میں ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال پر ایک انکوائری بھگت رہے ہیں اور این آر او حاصل کرکے وزیراعظم کے اختیارات استعمال کررہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے آسیہ بی بی بریت کے فیصلے کے خلاف مولانا خادم رضوی اور ان کے ساتھی ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں شاھراھوں پر دھرنے دیے بیٹھے رہے۔

وہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ، آرمی چیف اور وزیراعظم کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف غداری، قتل کے فتوے جاری کرتے رہے۔ پہلے وزیراعظم اور ان کے وزیر اطلاعات نے دھرنے دینے والوں کے خلاف ریاست کی جانب سے سخت کارروائی کرنے کا واضح اعلان کیا تھا۔ مگر پھر پاکستان کی عوام اور دنیا نے دیکھا کہ ایک پانچ نکاتی این آرا و عمل میں آیا۔ ملک کا پہیہ جام کرنے، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے، ہنگامہ آرائی کے ذریعے زندگی مفلوج کرنے، اور سب سے بڑھ کر اعلیٰ عدلیہ کے انتہائی معزز ججوں کے خلاف موت کے فتوے جاری کرنے، آرمی چیف کے خلاف فوج و عوام کو بغاوت پر اکسانے اور وزیراعظم کو بھی واجب القتل قرار دینے والے لوگ بغیر کسی قانونی کارروائی کے ایک معاہدے کے تحت بری الزمہ قرار دے دیے گئے۔

جو وزیراعظم پہلے بڑے دبنگ انداز میں حکومتی رٹ کی بحالی اور شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کررہا تھا وہ این آر او کے تحت بلوائیوں کے آگے گھٹنے ٹیک گیا۔ عمران خان صاحب کو اقتدار میں آئے ابھی محض ڈھائی ماہ ہوئے ہیں، مگر جس تیزی سے تحریک انصاف کی حکومت مقبولیت سے غیر مقبولیت کا سفر طئے کر رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں ایک اور کنوینشنل مسلم لیگ بننے جا رہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ جنرل مشرف کے این آر او کے تحت پیپلز پارٹی کے قائدین کے علاوہ جن جماعتوں کے قائدین و کارکنان کے کرپشن، دہشتگردی، منی لانڈرنگ کے مقدمات واپس لئے گئے انہیں بلا تاخیر شروع کیا جائے۔

دہشتگردانہ کارروائی وں، منی لانڈرنگ میں ملوث ہزاروں افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ان کے خلاف مقدمات میں بھی ویسی ہی دلچسپی کا مظاھرہ کیا جائے جیسا وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات میں اکثر دکھاتی ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی اب اپوزیشن کا کردار چھوڑ کر حکومتی کردار ادا کرنا چاہیے اور سیاسی مفاہمت، یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ ملک اب مزید کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).