ایک اور فرقہ ابھر رہا ہے


ایک زمانے میں عرب کے لوگ اپنی زبان دانی اور اپنی شاعری کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اپنے علاوہ تمام دنیا کو عجمی گردانتے تھے۔ حالیہ ادبی منظر نامے کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہاں ہر شاعر ہی اپنے تئیں عربی اور باقی سب کے سب عجمی ہیں۔ ہمارے ہاں شاعری میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں زیادہ فرقہ بندی پائی جاتی ہے۔ چاہیں تو ان فرقوں کو باآسانی الگ الگ نام بھی دیے جا سکتے ہیں۔ جیسے کہ درباری فرقہ، درویشی فرقہ، الحادی فرقہ، جہادی فرقہ، کربلائی فرقہ، مُلّائی فرقہ، حادثاتی فرقہ اور واقعاتی فرقہ۔

ان میں سے کچھ فرقے جس فرقے کو پسماندہ ترین اور دقیانوسی بلکہ پتھر کے زمانے کا باسی سمجھتے ہیں وہ ہے عشقیائی فرقہ۔ جیسے اسلام کے اندر تمام فرقوں میں نماز قدرِ مشترک ہے اور نماز ادا کرنے کے مختلف طریقوں کی وجہ سے ہر کوئی اپنے علاوہ باقی تمام فرقوں کو کافر گردانتا ہے اسی طرح ادبی فرقوں میں نرگسیت تمام فرقوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور اظہارِ نرگسیت کے مختلف طریقوں کی وجہ سے ہر فرقہ اپنے علاوہ سبھی کو ادبی کافر مانتا ہے۔

کیونکہ فرقے کی نظر میں اس کا طریقہ عین شرعی ہے۔ ان فرقوں میں اپنی اپنی مخصوص طرز کی شاعری کی بھرمار اور اپنے اپنے مخصوص مداحین ہیں۔ انہی تمام فرقوں میں پچھلے کچھ عرصے میں ایک نیا فرقہ ابھر کر سامنے آیا ہے لیکن اس کے قدم اچھی زمین پر مضبوطی سے جمے نہیں۔ اس لیے اس کا کوئی باقاعدہ ضابطہ، ایجنڈہ یا منشور و دستور یہاں تک کہ نام بھی سامنے نہیں آیا اور نہ یہ صحیح طور پر معلوم ہو سکا کہ اس فرقے کا خلیفہ یا امام دراصل کون ہے۔

اس لیے اسے فی الحال فرقۂ جدیدیہ کہا جا سکتا ہے۔ اس فرقے کی جو خاص بات اسے دیگر فرقوں میں نمایاں کرتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کا ہر نمائندہ خود کو ہی اس کا خلیفہ و امام سمجھتا اور جہاں تک ممکن ہو سکے کہلواتا اور منواتا بھی ہے۔ اس فرقے والے اپنی شاعری کو مستقبل کی شاعری کہتے ہیں۔ اگلے وقتوں کے شاعر ماضی پرست تھے اور یہ جدیدیے کہتے ہیں ہم مستقبل کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کے بیشتر شعراء ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہو کر لادین ہوتے جا رہے ہیں۔

اور میرے خیال میں وہ دراصل شاعری کی ایک اختیاری قسم ہے جس کی بنیاد پر یہ نیا فرقہ خود کو مستقبل کا شاعر کہتا ہے، اس شاعری کا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں بلکہ اس کے بارے میں فیصلہ تخلیق کار نے خود کرنا ہوتا ہے کہ اسے ان موضوعات پر اور اس طرز پر شعر کہنا ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے ایسے شعراء و شاعرات ہوں گے جن کی ڈسٹ بِن کو اگر بیک اپ پہ لگایا جائے تو ایسی مستقبل کی شاعری کا بہت سارا مواد سامنے آ سکتا ہے جسے انہوں نے کئی نازک لمحوں میں سپردِ قلم کرنے کے بعد ہوش کی دنیا میں واپس آتے ہی سپردِ ڈسٹ بِن کر دیا ہو گا، وہ بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے۔

مستقبل کے ان کے ہاں عورت کی چنری اور آنچل کا ذکر شعر کی گھسی پٹی روایت ہے اور اس کے لباس کے دیگر اجزائے ظاہری و نہانی کا ذکر جدت، جن میں شلوار سرِفہرست ہے۔ مرد کا جمال و جلال اور خود داری و خوبروئی پرانی روایت اور نامردی اور لونڈے بازی کے علاوہ خواجہ سراؤں کا ذکر تازہ کاری ہے۔ خدا کی تعریف، نبی کی مدحت، کربلا کی پیاس کا تذکرہ جگالی اور ان سب عقائد کا انکار جدت۔ یہ شعر میں عقیدوں کی بجائے انسانیت کی بات کرنے کو جدت کہتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کسی کے عقائد پہ چوٹ کرنا انہیں انسانیت سے خارخ کر دیتا ہے۔

ان کی نظر میں زندگی کے لطیف پہلوؤں کو اجاگر کرنا پسماندگی اور قبیح پہلوؤں کو موضوع بنانا جدت ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مدت ہوئی آج تک کوئی خط کی جگہ ٹیلی فون، موبائل یا ای میل تک کو اس طرح نہیں برت پایا کہ یہ جدید ایجادات ضرورتِ شعری معلوم ہوں۔ ویڈیو کال یا دیگر ایجادات تو بعد کی باتیں ہیں۔ ہاں البتہ ان چیزوں کے ذریعے شعر کو ایک چٹکلہ بنانے میں ضرور مدد لی جا رہی ہے۔ مستقبل کے ان شاعروں کا مقصد زندگی سے لطافت کو مزید کم کرنا ہے، ورنہ ان تمام موضوعات کو زیرِ قلم لانے کے لیے بیشمار اصناف ہیں جن میں طبع آزمائی کی جا سکتی ہے۔

ایک بچی کھچی صنف غزل میں جس سے لطافت کو نوچ پھینکنے کے درپے ہے یہ فرقۂ جدیدیہ۔ فیس بک یا سوشل میڈیا نے اگر گھر بیٹھے شاعروں کو منظر عام پہ آنے کی آسان سہولت دے دی ہے تو اس کا اتنا اپھارا نہیں ہو جانا چاہیے کہ شاعری کے نام پر چار لوگوں کی واہ واہ حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی رہی سہی روایتی قدروں کو ہی مسمار کر ڈالیں اور مزید خلا میں معلق ہو کر رہ جائیں۔ نیا کہنے کے لیے نیا پڑھنا نیا دیکھنا نیا سننا ضروری ہے۔ نئے تجربات سے گزرنا ضروری ہے۔ دل و ذہن کو ہر نئی واردات کے لیے چوکنا رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس سب میں جب آپ کا مقصد اپنے علاوہ سب کو رد کرنا ہو جاتا ہے تو آپ کبھی بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکتے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).