ویل ڈن عثمان بزدار


لاہور میں شیلٹر ہوم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا آج پہلا قدم ہے۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کی طرف۔ لاہور بڑا ہی پولیوٹیڈ شہر ہے۔ یہاں لوگ سڑکوں پر اپنے بچوں کے ساتھ سوتے ہیں۔ مزدور یہاں کام کرنے آتے ہیں۔ رات کو سونے کے لئے ان کے پاس جگہ نہیں ہوتی۔ مجھے خو شی ہے آج ہم ایسا کام کرنے جا رہے ہیں جس کی برکت سے پاکستان بہت آگے جائے گا۔ یورپ کی مثال دیکھیں وہاں کوئی رات کو باہر نہیں سو سکتا کیونکہ وہاں اسی طرح کے شیلٹر ہوم بنے ہوئے ہیں۔ ہم بھی شیلٹر ہوم بنانے جا رہے ہیں۔

عمران خان نے مزید فرمایا کہ یہ مزدور چونکہ ہمارا ووٹ بینک نہیں اس لئے کوئی حکومت ان کا خیال نہیں کرتی۔ ہمارے پلان میں پہلے سو دنوں میں حکومت کی طرف سے بے گھر لوگوں کو گھر دینے کا وعدہ شامل تھا اس لئے یہ منصوبہ لوگوں کو چھت فراہم کرے گا۔ یہ شیلٹر ہوم اسٹیشن کے پاس داتا دربار اور اسی طرح اور مقامات پر بھی بنائے جائیں گے۔ ایک بات کی البتہ آپ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ ہوم صرف مزدوروں کو چھت فراہم کرے گا یا ملنگ، نشئی اور دولے شاہ کے چوہے بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے۔ گھروں سے نکالی ہوئی خواتین اور باہر سے آئے مسافر اس سے فیض یاب ہو سکیں گے یا نہیں۔

وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اس قول کو دہرایا جس میں آپ نے عثمان بزدار کی تعریفوں کے پل باندھے تھے۔ آپ نے اس غریب کو یاد دلایا کہ وہ ایسی جگہ سے اسے اٹھا کر لائے ہیں جہاں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ عثمان کا گھر تاریکی سے بھرا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا پنجاب میں یہ تصور تھا کہ وزیر اعلی بڑے محلوں میں رہتا ہو گا بڑی بڑی گاڑیاں دربان ہٹو بچو کی صدائیں اور دھوم دھام ہوگی۔ میں ایسا وزیراعلی لے کر آیا ہوں جس نے اس طرح کی چیزیں نہ دیکھی ہیں نہ اسے ان محلوں میں رہنے کا شوق ہے۔ وہ ایک قبائلی انسان ہے اور سادہ زندگی بسر کرنے والا۔

مزید فرمایا کہ اس کو میں نے ابھی اشارہ ہی کیا تھا کہ وہ بھاگ پڑا اور شیلٹر ہوم کے لئے خود جاکر جگہ تلاش کی کیوں کہ اسے شیلٹر کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ آپ نے فریا کہ میری سلیکشن غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے وسیم اکرم کو رکھا۔ میں نے انضمام کو رکھا، وہ چیمپین بنے۔ عثمان بھی چیمپین بنے گا۔ کس چیز کا چیمپین بنے گا۔ اس کے اندر کیا خوبیاں ہیں جو کسی اور کو نظر نہیں اتیں۔

یار لوگوں نے تو محدب عدسے لگا لگا کر دیکھا ہے۔ ان کی اپنی پارٹی نے تو بیچارے کو اندر باہر سے دیکھا ہے۔ اس کا شجرہ تک نکال کے دیکھ لیا۔ اپوزیشن نے تو اسے قاتل تک قرار دے دیا جو دیت دے کر چھوٹا ہے۔ لیکن وزیراعظم صاحب کو عثمان بزدار پسند ہے۔ اتنی تعریف تو آپ نے پرویز خٹک کی کبھی نہیں کی حالانک وہ بیچارہ کنٹینر پر ڈانس بھی کرتا رہا ہے اور پرانا وفادار ساتھی ہے۔ عثمان کی تو ابھی عمر ہی کیا ہے۔ اب عثمان کامستقبل دیکھنے کے لئے وہ حالات دیکھنے پڑیں گے جو وسیم اکرم کے ساتھ پیش آئے۔

وسیم اکرم کو جوا کھیلنے کے الزام میں عوام اور عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمان کو کن الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کل تو عدالتیں کام کرنے پر بھی سزا دے رہی ہیں اور کام نہ کرنے پر بھی تنخواہیں واپس کرنے کا حکم صادر کرتی نظر آرہی ہیں۔ ایک بات البتہ عثمان اور وسیم میں مشترک نظر آتی ہے۔ وسیم کے گیند کی بلے بازوں کو سمجھ نہیں آتی تھی اور وہ آؤٹ ہو جاتے تھے۔ عثمان کی کسی بات کی میڈیا کو سمجھ نہیں آتی اس لئے وہ بھی جلدی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔

انضمام سے عثمان کی مطابقت البتہ اس کے علاوہ کوی نہیں کہ دونوں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ عثمان بزدار جنوبی پنجاب کا نمائندہ ہی تو لگتا ہے، ہر لحاظ سے پسماندہ۔ لوڈ شیڈنگ اس کے دل و دماغ پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔ یقیناً اسے جنوبی پنجاب کی مفلسی کا پورا ادراک ہے۔ لیکن دنیا کی تیز رفتار ترقی اور چکاچوند اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتی نظر آتی ہے۔ پنجاب کے عوام مگر اس کی بجائے سیدھا عمران خان کو دیکھتے ہیں جو ابھی ملکی معیشت کی بقا کے لئے اپنے نظریات کو پس پشت ڈال کر دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔

سعودی عرب کے کے بعد چین سے بھی آس اور امید کا دامن بھرتا نظر آتا ہے۔ ادھر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دور چل رہے ہیں۔ وہاں بھی کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ پاکستان کے قرضے اور بڑھ جائیں گے۔ مہنگائی کا طوفان قوم کو پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لیکن اس کے سوا چارہ نہیں۔ ان ساری باتوں کے باوجود عثمان بزدار عمران خان کی شاندار دریافت ہے۔ اس پر کوئی الزام نہیں۔ اس نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ حتیٰ کہ اس کی جوانی بھی بے داغ ہے۔

پنجاب کے عوام، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین جہاں خاموشی سے وزیر اعلی کو دیکھ رہے ہیں، حکومتی پارٹی کے اعلی اور نامور با اثر سیاستدان بشمول اتحادی جماعتیں بڑی بے چینی سے عثمان بزدار کو ناکام ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ شاید ان کے منصوبے اس معصوم انسان کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔ حلف اٹھاتے ہی خاور مانیکا سکائی لیب بن کر ان کے سر پر گرا۔ سپریم کورٹ نے رگڑا لگایا لیکن کپتان نے اسے گرنے سے بچا لیا۔ بزدار کا موازنہ لیکن وسیم اکرم سے کرنے کی ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آئی۔

نہ اسے سیاست کی بیٹنگ آتی ہے نہ باولنگ۔ فیلڈنگ تو اس کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ عمران خان کب تک اس کی جگہ سارے شعبے سنھالے گا۔ وسیم تو خود عمران سے اچھا باولر تھا۔ اس کی بیٹنگ بھی بہت اچھی تھی۔ بزدار کے سارے کام تو سیکرٹری کر رہے ہیں۔ ایم پی ایز بھی سمجھ گئے ہیں۔ عمران خان نے اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا تو اسے بھی جلد سمجھ آ جائے گی۔ ورنہ ٹیم کا انجام نوشتہ دیوار ہے۔ عثمان بزدار کی ساری کمزوریوں کے باوجود شیلٹر ہومز کا منصوبہ ایک شاندار منصوبہ ہے اور مدنی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ ویل ڈن عثمان بزدار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).