سیاستدانو! اگین یو آر آ مجرم


پاکستان کا قیام ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے محض دو سال بعد ہی حکومت وقت کو احتساب کا قانون بنانے کی ضرورت پڑ گئی۔ 14 اگست 1949 کو وطن عزیز میں پروڈا کا قانون نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون کے تحت مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اور وزراء کے خلاف بد عنوانی، اقربا پروری، رشوت ستانی، نا جائز اثاثہ جات اور اختیارات سے تجاوز کرنے جیسے الزام لگا کر مقدمات قائم کیے گئے۔ اس قانون کے تحت گرفت میں آنے والے کسی بھی رکن اسمبلی یا وزیر کی سزا ئے قید اور کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے نا اہلی کی سزا کی حد زیادہ سے زیادہ دس سال مقرر کی گئی۔ حکومت وقت نے اس قانون کو اراکین اسمبلی کی سیاسی وفا داریاں حاصل کرنے کے لیے بخوبی استعمال کیا اور جن سیاست دانوں نے حکومت وقت کی مخالفت کی، ان پر مقدمات قائم کر کے اس قانون کے تحت سزائیں سنائیں گئیں۔ ایوب کھوڑو اور افتخار ممدوٹ جیسے بڑے سیاست دانوں کو بھی اسی قانون کے تحت سزا دی گئی۔

وطن عزیز کے پہلے دیسی فوجی سربراہ، پہلے حاضر سروس وزیر دفاع، فیلڈ مارشل، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، صدر اور نہ جانے کیا کیا، جنرل ایوب خان نے بھی سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور سرکاری افسران کا کڑا احتساب کرنے کے لیے پوڈو اور ایبڈو جیسے احتسابی قوانین کا نفاذ کیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد ڈیفنس آف پاکستان رول کا نفاذ بھی کیا گیا۔ پوڈو، ایبڈو اور ڈیفنس آف پاکستان رول کے ذریعے جنرل ایوب نے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی، سزائیں بھی دیں، لیکن ایک سیاسی تحریک کے نتیجے ہی میں استعفا دے کر گھر بیٹھ گئے۔

ڈیفنس آف پاکستان رول کا قانون ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار حکومت میں بھی نافذ رہا اور سیاست دان و صحافی اس رول کے تحت گرفتار کیے جاتے رہے اور سزا پاتے ریے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور احتساب کا ادارہ بھی قائم ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد 1999 میں نیب آرڈننس نافذ کر دیا۔ نیب آرڈننس کے تحت سیاست دانوں، بیورو کریٹس، اراکین اسمبلی، وزراء و امراء کے خلاف بد عنوانی، اقربا پروری، نا جائز اثاثے اور آمدن سے زیادہ اخراجات و اثاثہ جات کے مقدمات قائم کیے جا سکتے ہیں۔

تحفظ پاکستان قانون 2014 میں ایوان بالا و زیریں سے منظور ہوا۔ اس قانون کے تحت پاکستان، اس کے شہریوں اور افواج کے خلاف اسلحہ اٹھانے، ملکی سالمیت کے خلاف دھمکی دینے یا جنگ کرنے والا شخص، آتش زنی، خود کش دھماکے، پولیو ورکرز کو قتل، دفاعی و مواصلاتی تنصیبات پر حملہ کرنے والا شخص اس قانون کی زد میں آئے گا اور جرم ثابت ہونے پر 20 سال قید کی سزا پائے گا۔

فوجی آمروں اور ہر دور کے حکمرانوں نے اپنے سیاسی حریفوں اور مخالفوں کو قابو میں کرنے اور رکھنے کے لیے احتسابی قوانین کا سہارا لیا۔ گزشتہ دور حکومت میں نیب سربراہ کی تبدیلی بعد سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ( ن ) کی قیادت بھی نیب کی زد میں آئی ہوئی ہے۔ دونوں جماعتیں نیب آرڈننس کو آمر کا بنایا ہوا کالا قانون قرار دیتی ہیں، لیکن دونوں جماعتیں اپنی حکومت کے دور میں نیب آرڈننس کو ختم کرنے یا اس آرڈننس کی اصلاح کرنے پر متفق نہ ہوئیں۔ جس کا نقصان دونوں جماعتوں کی قیادت کو ہوا ہے۔

نیب آرڈننس کے تحت جہاں میاں نواز شریف، ان کے داماد کو قید اور ان کی صاحب زادی کو قید و نا اہلی کی سزا سنائی جا چکی ہے، وہیں مسلم لیگ ( ن ) کے موجودہ صدر و قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو بھی نیب نے اپنی حراست میں لیا ہوا ہے۔ ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے گزشتہ دنوں وطن عزیز کے نمایاں ٹی وی چینلز پر میاں شہباز شریف پر قائم نیب مقدمات کے حوالے سے گفتگو کی، جس پر مسلم لیگ ( ن ) سراپا احتجاج ہے۔

ڈی جی نیب لاہور نے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے، ایک سوال کے جواب میں ایسا تاریخی جملہ ادا کیا، جو تاریخ پاکستان سے دل چسپی رکھنے والے طالب علموں کو پلے سے باندھ لینا چاہیے۔ ڈی جی نیب لاہور سے جب اینکر نے پوچھا کہ کیا آپ میاں شہباز شریف کے خلاف آمدن سے اثاثہ جات کا کیس بھی بنانے جا رہے ہیں؟ تو ڈی جی نیب نے ہاں میں جواب دیا اور مزید وضاحت کی کہ نیب کا قانون دو باتیں کرتا ہے، ”اگر آپ نے اپنے عہدے سے خود فائدہ اٹھایا تو آپ مجرم ہیں اور اگر آپ نے اپنے عہدے کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے، کسی دوسرے شخص کو فائدہ پہنچایا تو اگین یو آر آ مجرم“۔

جب سے ڈی جی نیب لاہور کی زبان مبارک سے ’اگین یو آر آ مجرم‘ والا جملہ سنا ہے اور اس پر غور کیا ہے تو یہی بات ذہن میں گردش کر رہی ہے کہ پاکستان کا قیام سیاست دانوں کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ ہر دور حکومت میں سیاست دان ہی سب سے پہلے احتساب کی زد میں آتے ہیں۔ لیکن جن شخصیتوں نے ملکی آئین توڑا، ملکی سالمیت پر سمجھوتے کیے، جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا، ان کو نہ تو کسی کمیشن کی رپورٹ میں نام آنے کے بعد سزا ہوئی اور نہ ہی بد عنوانی میں ملوث ہونے کے باوجود کسی احتسابی ادارے سے سزا ہوئی۔ سیاست دان ہی پاکستان بنانے کے اصل مجرم ہیں اور اس سے بڑا جرم یہ کر رہے ہیں کہ وطن عزیز میں مستحکم جمہوری حکومت کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے اگین یو آر آ مجرم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).