تعلیمی اداروں کے دھندے


مایوسی کفر ہے اور خاموش رہنا بھی گُناہ ہے۔ اس وقت پرائیویٹ اسکولوں نے تعلیم کے پیشے کو دھندہ بنا دیا ہے۔ اس دھندے کو حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ چند ماہ میں اسکولوں نے سو فیصد سے زائد فیسیں بڑھا دی ہیں۔ بچوں کے والدین عدالتوں، میڈیا تک جا رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔ چند دوستوں نے کچھ واوچرز دکھائے ہیں جو چند بڑے اسکولوں کے ہیں ڈبل سے زائد فیس کا اضافہ ایک ہی ماہ میں کیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں ہی پرائیویٹ تعلیم کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے لیے ایک فیصد ہی کہیں کام نظر نہیں آیا۔ بچے پڑھانے والے والدین سراپا احتجاج ہیں، ہائیکورٹ سندھ و پنجاب میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہیں لیکن ان کے مطابق حکومتی سطح پر کوئی ہمدردی تک بھی نہیں کی گئی۔ اس دھندے کو مکمل حکومتی سپورٹ حاصل ہے، لاہور میں بڑے اسکول سسٹم کے مالکان میں سیاسی جماعتوں کے ممبران پارلیمنٹ، ان کی بیویاں، ان کے اہل وعیال جیسا کہ فوزیہ قصوری، بیگم شفقت محمود چوہدری، نیو ٹی وی گروپ، میاں عامر محمود گروپ و دیگر ایسے ہی سرمایہ دار افراد سکولوں کے مالکان ہیں جو اپنے دھندے کو کبھی بند نہیں ہونے دیتے۔

نہ تو یہ لوگ سرکاری اسکولوں کی اصلاحات چاہتے ہیں اور نہ نجی اسکولوں کے لیے کوئی کنٹرول پالیسی بنانے کی خواہش میں ہیں۔ ان کا ٹارگٹ بھی ایگزیکٹو کلاسز تھیں مگر سفید پوش افراد بھی اس مارکیٹنگ کے چکر میں ورغلائے گئے بچوں کو داخل تو کردیا مگر اب اس جال میں پھنس چکے ہیں، بچوں کو نکال بھی نہیں سکتے اور رکھنے کی سکت میں بھی نہیں۔ جس بھی پرائیویٹ بڑے سکول کی عمارت سے گزریں مارکیٹنگ کے لیے انہوں نے آٹھ دس بچوں کے اچھے نمبرز کی تصویریں لگائی ہوتی ہیں، اور اس کے لیے کتنا مال کہاں کہاں اس دھندے سے دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ آٹھ دس بچوں کو نمبرز مل جاتے ہیں جو اسکولوں کے دو سال تک کاروبار کے لیے کافی ہیں۔

چند مصدقہ رسیدیں موصول ہوئی ہیں متاثرین کی طرف سے انہیں دیکھیے اندازہ کیجیے کہ تعلیمی دھندے کی بدمعاشی کس طرح کی جا رہی ہے۔ جس جس شعبے کی طرف نظر دوڑائیں تو نوحہ کرنے کو دل چاہتا ہے، جہاں جہاں اختیارات و مال و دولت کی ریل پیل ہے بس وہی حاکم وقت ہیں وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے نظام سے ہم سب واقف ہیں، کبھی بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، پھر طبقاتی تقسیم کے باعث سفید پوش اور ایلیٹ کلاس طبقے نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیج دیا لیکن وہ سرکاری اسکول بچوں کی تعلیم و تربیت کو نصب العین بنانے کے کھوکھلے نعروں کے ساتھ باہر بڑے بڑے سنہری حروف، احادیث، بڑے لوگوں کے قول لکھے اور کاروبار شروع کردیا گیا۔

کاروبار تو حلال ہے لیکن لوٹ مار کا جو دھندہ چل پڑا ہے اس پر افسوس ہوتا ہے۔ چند دوستوں سے معلومات ملی ہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں نے گزشتہ چند ماہ میں اپنی فیسیں سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھائی ہیں، ہر سال تھوڑا بہت اضافہ ہورہا تھا مگر اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کی کچھ باتیں قابل تسلیم ہیں کہ انہوں نے جس معیار کی تعلیم پرائیویٹ اسکولوں میں دلوا چکے ہیں اب انہیں سرکاری اسکولوں میں کیسے بھیجا جاسکتا ہے۔

والدین کا کہنا بجا ہے کہ ہر حکومت وعدے کرتی ہے لیکن ان پر کوئی عمل نہیں ہوتا، عمران خان سے تو زیادہ امیدیں تھیں لیکن ان کے کہنے کے باوجود بھی نجی سکولوں کی فیسیں بڑھائی گئی ہیں لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں۔ عجیب بات ہے نہ تو کوئی دانشور یا دیندار ان معاملات کے بارے ڈسکس کرتا ہے نہ کوئی حرام حلال کے فتوے لگاتا ہے، اور دلچسپ یہ کہ کوئی سوشلزم کا حامی بھی اس سرمایہ دارانہ بدمعاشی پر سوال کرتا ہے۔ مطلب ہمارے مسائل صرف دو ہی ہیں ایک سیاست اور دوسرا مذہب، باقی اس قوم کے لوگوں کی طرح ہم بن چُکے ہیں جنہوں نے بادشاہ سے کہا تھا جوتے لگانے والے سپاہی بڑھائے جائیں، امید ہے اس حکومت میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہو گا، بس آپ نے پچھواڑا آگے کرنا ہوگا۔

ہمارے حکمرانوں کو دیکھنے کے بعد خیال سیدھا تاریخ کے ان بادشاہوں کی طرف چلا جاتا ہے جو ہم تاریخ عصر میں پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ وہ بادشاہ اپنی حویلیوں و محلات میں بند، اعلیٰ لباسوں میں ملبوس، مئے و حُسن کی رنگ رلیوں میں محو رقص۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ جو اپنے آپ اور اسلاف پر فخر کرتے تھے، ایسے غرق ہوئے کہ جنازوں کو کاندھا دینا والا بھی کوئی نہیں تھا، تاریخ نے دھارے سے ان کے نام تک مٹا دیے آج فقط خالی جگہیں پُر کرنے واسطے ان کے نام امتحانی پرچے میں ملتے ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ عوام تنگ ہوچکی ہے اب اس بدبودار نظام سے، جمہوریت نافذ کرنی ہے تو بدبودار بدمعاشی کا خاتمہ کیجیے یہ نہ ہو کہ ان مغل بادشاہوں کی طرح خستہ حال محلات میں پڑے رہو، پوچھنے والا بھی کوئی نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).