ٹی وی ٹرائل، چوہدری نثاراور پیمرا


 \"asim480\"وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ مختلف لوگوں کے خلاف کرپشن یا دہشت گردوں کی اعانت کے سلسلہ میں قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں میں ہونا چاہئے ۔ یہ معاملات تفتیش کی ویڈیو لیک کرکے اور انہیں ٹیلی ویژن پر نشر کرکے طے نہیں کئے جا سکتے۔گزشتہ ہفتہ کے دوران ڈاکٹر عاصم کی دو اور ایم کیو ایم کے کارکن منہاج قاضی کی ایک ویڈیو منظر عام پر لائی گئی اور ٹیلی ویژن پر نشر بھی ہوئی۔ اب وزیر داخلہ نے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ یہ ویڈیو لیک ہونے کے معاملہ کی تحقیقات کرے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پیمرا کو بھی خط لکھا ہے کہ ٹیلی ویژن پر اس قسم کے ویڈیو نشر ہونے کا نوٹس لیا جائے۔

چوہدری نثار علی خان کے اصولی بیان کے باوجود اس میں کچھ سقم ضرور موجود ہے۔ چند ماہ پہلے ہی وزیر داخلہ نے دھمکی دی تھی کہ حکومت کے پاس بھی اعترافی بیانات موجود ہیں اور اگر اپوزیشن نے حکومت پر غیر ضروری دباؤ جاری رکھا تو وہ بھی ان معلومات کو عام کر سکتے ہیں۔ اب یکے بعد دیگرے ڈاکٹر عاصم کے دو ویڈیو منظر عام پر آئی ہیں۔ ایک میں آصف علی زرداری کے رضاعی بھائی اویس مظفر ٹپی پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے گئے تھے۔ ابھی تبصرہ نگار یہ جائزہ لینے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ ڈاکٹر عاصم نے یہ بیان دے کر کیا آصف زرداری کو بچانے کی کوشش کی ہے یا اس کا کوئی دوسرا مقصد ہے کہ اگلے ہی روز ایک نئی ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں آصف علی زرداری کے مالی معاملات اور ان کے فنانس منیجرز کی تفصیلات دی گئی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ مؤقف درست معلوم ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ صوبائی حکومت کو تحقیقات کا مشورہ دینے کی بجائے خود اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کہ اس میں ان کا تو کوئی کردار نہیں ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف یہ ہتھکنڈہ پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا کا انتظار کرنے والے صولت مرزا کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں متحدہ کی قیادت پر کراچی میں جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد پھانسی چند ماہ کے لئے مؤخر کردی گئی تھی۔ حکومت کے وعدوں کے باوجود اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ جیل کی کوٹھری میں قید ایک مجرم کی اعترافی ویڈیو کس طرح ریکارڈ ہوئی اور اسے کیوں کر باہر لا کر میڈیا کو فراہم کیا گیا۔ اب ایک دوسرے زیر حراست کارکن منہاج قاضی کی مختصر ویڈیو میں 18 سال پرانے حکیم سعید کیس میں ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ متحدہ نے بھی وزیر داخلہ کے بیان کو قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رینجرز وزیر داخلہ کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس لئے انہیں معلوم ہو نا چاہئے کہ وہ اس قسم کے ویڈیو کس کے کہنے پر اور کیوں لیک کرتے ہیں۔

اس سے قبل ایف آئی کے زیر حراست ایک شخص کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں الطاف حسین پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس قسم کے ویڈیو سامنے آنے سے مخالفین پر الزام تراشی کے ذریعے سیاسی فائدہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن قانونی طور سے عدالتوں میں ملزموں کے خلاف استغاثہ کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے۔ عام طور سے نہ تو عدالتیں ایسے اعترافی بیانات کو قبول کرتی ہیں اور نہ ہی متعلقہ شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے یہ بیان دیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے پہلی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ریکارڈنگ زبردستی کروائی گئی ہے اور اس کا ڈاکٹر عاصم کے اعتراف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ملک میں اگر قانون کی بالا دستی قائم کرنا ہی حکومت کا مقصد ہے تو زیر حراست افراد کے اس قسم کے ویڈیو باہر آنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے اور افسوسناک سیاسی الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے۔ درحقیقت اخفائے راز کے قانون کے تحت کوئی تفتیشی افسر ملزمان کے اعتراف کے بارے میں عدالت کے سوا کسی غیر متعلقہ شخص سے بات بھی نہیں کر سکتا۔ یوں بھی اگر اس قسم کی ریکارڈنگ کو عدالتوں میں ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا تو ملزموں کی تفتیش کے دوران بیان ریکارڈ کرنے کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے۔ اگر ریکارڈنگ ضروری ہو تو ریکارڈ شدہ مواد کو نہایت احتیاط سے محفوط رکھنے کا کوئی قابل عمل طریقہ متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ ایسے ویڈیو سامنے آنے کے بعد کوئی ذمہ دار یہ قبول نہیں کرتا کہ یہ حرکت اس نے کی ہے۔ اور الزام نچلے عملے کے سر تھوپ دیا جاتا ہے یا اسے اتفاقی حادثہ کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔

ملک میں الیکٹرانک میڈیا طاقتور اور مؤثر ہو چکا ہے۔ اسے بھی باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس قسم کے غیر مصدقہ ویڈیو نشر کرنے سے باز رہے۔ اگر کوئی ادارہ یا شخص یہ ذمہ داری قبول نہیں کرتا کہ وہ یہ دیڈیو ریکارڈ کرنے اور عام کرنے کا ذمہ دار ہے تو اسے نشر کرنا بنیادی صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس طرح میڈیا ملک کے مختلف سیاسی حلقوں اور اداروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر جھوٹا پروپیگنڈا عام کرنے میں شریک جرم ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا اور صحافتی تنظیموں کو صورت حال کا جائزہ لے کر حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے تاکہ پیمرا کو غیر ضروری طور پر میڈیا کے پر کاٹنے کے لئے استعمال نہ کیا جا سکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments