مذہبی رہنما، سیاسی اسلام اور نفرتوں کا کاروبار


میرا بچپن جس گھر میں گزرا وہاں ہمارے قریب ترین ہمسایے کینیڈا سے آئے ہوئے پادری مسٹر لارنس تھے۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے رکن تھے لیکن اپنے عیسائی ہمسایوں کے ساتھ ہمارے گھرانے کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ ہم اکثر ایک دوسرے کو دعوت پر بلایا کرتے تھے جہاں میرے والد صاحب اور مسٹر لارنس کے درمیان خوب مذہبی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ دونوں اپنے اپنے مذہب کے سچے ہونے کے حق میں دلائل دیتے تھے، اس بحث میں ایک دوسرے پر خوب طنز کے تیر بھی چلتے تھے لیکن کبھی تلخی نہیں دیکھی۔ دونوں ہی ہمیشہ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے رہتے تھے۔ یاد رہے مسٹر لارنس مکمل روانی کے ساتھ اردو بول سکتے تھے۔

ان کے دو بچے کم و بیش ہمارے ہم عمر تھے، وہ مری کے کسی سکول میں پڑھا کرتے تھے جہاں انہیں سردیوں میں تین ماہ کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہ تین ماہ دونوں گھرانوں کے والدین کے لیے کڑی آزمائش جبکہ ہم بچوں کے لیے خوبصورت ترین عرصہ ہوا کرتا تھا۔ ہم آپس میں کھیلنے کے لیے رسے تڑواتے رہتے تھے اور والدین ڈانٹ ڈانٹ کر گھر بلاتے رہتے تھے۔

یہ ایک خوبصورت دور تھا جو تیزی سے گزر گیا۔ جب میں نویں جماعت میں پہنچا تو عیسائیت کے بارے میں جاننے کا جنون پیدا ہوا۔ مسٹر لارنس کے گھر کے ساتھ ہی عیسائیوں کی ایک لائبریری تھی جہاں مفت کتابیں میسر تھیں۔ میں نے اگلے چند ماہ میں نہ صرف عیسائیت کے بہت سے کورس مکمل کیے اور انعامات حاصل کیے بلکہ بائیبل کا ایک بڑا حصہ بھی پڑھ ڈالا۔ تھوڑے ہی عرصے میں میری چارپائی کے ساتھ والی الماری عیسائیت کی کتابوں سے بھر گئی۔

ایک غیر مذہب میں اس قدر دلچسپی کے باعث میرے گھر والوں کو فکر لاحق ہونے لگی۔ ایک دن میرے والد صاحب میرے پاس آئے اور نرمی سے مجھے سمجھایا کہ عیسائیت کی کتابیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے لیے عمر کی پختگی ضروری ہے اس لیے اگر تم مناسب سمجھو تو ان کتابوں کو تلف کر دیتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو چاہے پڑھ لینا۔ میں نے ان کی بات مان لی اور ہمارے گھر میں موجود ایک کنویں میں وہ تمام کتب ڈال دی گئیں۔ لیکن عیسائی پادری کے بچوں کے ساتھ کئی سال کھیلنے اور عیسائی کتب کے اچھے خاصے مطالعے نے اس مذہب کے ساتھ میری اجنبیت دور کر دی۔

میرے گھر سے تھوڑے فاصلے پر احمدیوں کا ایک مختصر محلہ تھا۔ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے جوان ہوئے۔ نہ ہمارے گھر والوں نے کبھی منع کیا اور نہ ہی ان کے والدین نے۔ ایک دوسرے کے گھروں کا کھانا بھی کھایا کرتے تھے اور پانی بھی پیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہنستے کھیلتے بچپن گزرا لیکن اس دوران نفرتوں کا کاروبار شروع ہو چکا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ احمدیوں کا محلہ ویران ہونے لگا۔ ان کی نئی نسل دوسرے شہروں اور ملکوں میں منتقل ہو گئی اور بچپن کی یادیں دامن دل پر حسرت زدہ داغ کی صورت میں باقی رہ گئیں۔

سکول سے کالج کا دور آیا تو اسلامی جمیعت طلبا سے وابستگی شروع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب کی تحریریں کسی مقدس صحیفے کی طرح پڑھتے رہے اور ہر لفظ پر دل سے واہ نکلتی رہی۔ ہر لمحہ دل میں عقیدتوں بھرا خیال آتا کہ قدرت نے کس طرح ایک شخص پر حقیقی اسلام کی روح آشکار کر دی ہے۔ پھر ایک دن کہیں سے پروفیسر وارث میر صاحب کی کتاب ”کیا عورت آدھی ہے“ میرے ہاتھ لگ گئی۔ اس میں مودودی صاحب کے پردے کے تصور پر انہوں نے بھرپور تنقید کی۔

میں نے مولانا صاحب کی کتاب ”پردہ“ ایک بار پھر نکال کر پڑھی اور اس کا موازنہ پروفیسر وارث میر کی کتاب سے کیا تو مجھے پروفیسر صاحب کی باتیں سچ لگیں اور پہلی بار مودودی صاحب کا طلسم بکھرنے لگا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ سچائی کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جنہیں جاننے کے لیے اندھے ایمان سے زیادہ تشکیک کی ضرورت ہے۔ زندگی کے کچھ اور تجربات بھی اسی دوران ہوئے اور پھر ان سب کی بدولت ایک ایسے سفر کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ یہ بات بہت بعد میں جا کر سمجھ آئی کہ سچ کی تلاش کے لیے سرگرداں رہنا حققیت کو پانے سے زیادہ اہم کام ہے۔

اس طویل عرصے کی جستجو میں یہ بات بھی دیکھا کہ جب دو مختلف نظریات رکھنے والے طبقات ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو ان کے درمیان نفرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اجنبیت ہمیشہ خوف اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے جسے نظریاتی اختلاف کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے۔ میرا بچپن عیسائیوں اور احمدیوں کے ساتھ گزرا جس کی وجہ سے اجنبیت بھی دور ہوئی اور دونوں طبقات سے کبھی نفرت نہیں محسوس ہوئی۔ وہ ہم جیسے ہی انسان ہیں جو ہماری طرح والدین سے ملنے والے عقائد کو سچ سمجھتے ہیں۔ جس طرح مجھے اسلام کی حقانیت پر ایمان ہے اسی طرح وہ بھی اپنے نظریات کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ اتفاق سے وہ ایک ایسے گھر میں پیدا ہو گئے جہاں عیسائیت یا احمدیت کو حق سمجھا جاتا تھا۔

ایک اور بات یہ بھی جانی ہے کہ ہمارے علما کی اکثریت نے ہمیں خوف کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے اسلام کی حقیقی روح سے ہم پوری طرح آشنا نہیں ہو پاتے۔ ہمارے اندر یہ خوف پیدا کیا گیا ہے کہ احمدیوں سے نفرت کرنا حضور پاک ﷺ سے محبت کا لازمی تقاضا ہے اور جو لوگ کسی نہ کسی درجے میں ان سے نفرت نہیں کریں گے انہیں روز محشر ہمارے آقا ﷺ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ناراضگی کا خدشہ ایک ایسا خیال ہے جسے سوچ کر کمزور سے کمزور مسلمان کا دل بھی کانپ اٹھتا ہے اور وہ خوف کے مارے اپنے دل میں احمدیوں کے خلاف نفرت کو مضبوط کرتا رہتا ہے۔ یہ سوچ اسلام کی روح سے یکسر متضاد ہے۔ عام لوگوں کو یہ بات بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی بھی طبقے کو واپس حقیقی اسلام کی طرف لانا ہے تو اسے محبت کے ذریعے ہی بلایا جا سکتا ہے۔ میرے آقا ﷺ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں تو ایک ایک قدم پر مخالفین کے لیے محبت اور رحمت کا جذبہ نظر آتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ سمجھ میں آیا ہے کہ نفرتوں کا یہ کاروبار اس وقت سے بڑھا ہے جب سے علما کی توجہ فرد کی اصلاح سے زیادہ حصول اقتدار کی جانب مبذول ہوئی ہے۔ مذہبی رہنماؤں نے جن عوام کی رہنمائی کرنا تھی انہی سے ووٹ لینا پڑ گیا ہے چنانچہ عوام کی تربیت سے زیادہ ان کی خوشنودی اہم ہو چکی ہے۔ عملی طور پر عام آدمی رہنما ہے اور علما اس کی تقلید کر رہے ہیں۔ جب علما بے غرض ہوا کرتے تھے تو عام آدمی ان کے پاس آیا کرتا تھا، آج انتخابی حمایت کے لیے علما کو عوام کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے نفرتوں کا جو الاؤ روشن کیا گیا تھا، مذہبی رہنما عوام کے ساتھ مل کر اب اسی کے ارد گرد رقص کرنے پر مجبور ہیں۔ اس چکر میں اقتدار بھی نہیں مل پایا اور اپنے حقیقی فریضے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس بارے میں سنجیدہ مذہبی طبقے کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).