تجاوزات ڈھانے اٹھانے کا کاروبار


پاکستان میں ہر ہر سرکار کی جانب سے جو مہمات مسلسل جاری ہیں ان میں مچھر اور کتا مار مہم، شجر کاری اور تجاوزات کا خاتمہ سرِفہرست ہیں۔ میری کنپٹیاں سفید ہو گئیں مگر نہ مچھروں میں کوئی کمی آئی، نہ کتوں کی تعداد گھٹی، نہ پہلے سے موجود درختوں میں کوئی اضافہ ہوا بلکہ کمی آئی اور تجاوزات تو گویا پھوڑے کی طرح ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے صاف ہو جاتی ہیں اور دوبارہ پہلے سے زیادہ شد و مد سے ابھر آتی ہیں۔

ان دنوں کراچی کے دل یعنی صدر کی بائی پاس سرجری ہو رہی ہے اور اس کی کاروباری شریانوں کو بلاک کرنے والی تجاوزات ہٹائی جا رہی ہیں۔ پرانے کپڑوں، خشک میوہ جات، پرندوں کی تجارت اور کھانے پینے کے کام سے منسلک ایک ہزار سے زائد دکانیں مسمار کر دی گئیں۔

امید دلائی گئی ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیرِ اعظم عمران خان کے احکامات پر صوبائی و شہری حکومت کے اس مشترکہ صفائی آپریشن کے نتیجے میں نوآبادیاتی دور کا اصلی صدر اہلیانِ کراچی کو واپس مل جائے گا۔ ہفتہ اور اتوار کو صدر میں گاڑیوں کا داخلہ بند ہوگا تاکہ لوگ باگ بے فکر ہو کر پیدل گھوم سکیں، پرانی کتابیں اور دست کاری کے نمونے خرید سکیں اور اہلِ خانہ کے ہمراہ سکون سے کچھ کھا پی سکیں اور اسی طرح وقت گذار سکیں جیسے سات آٹھ دہائیوں پہلے کے صدر کے بارے میں سنا کرتے تھے۔

بلدیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جو متجاوز دکانیں گذشتہ تیس برس سے بلدیہ کراچی کو کرایہ ادا کر رہی تھیں انھیں شہر کے دیگر علاقوں میں متبادل جگہ دے دی جائے گی۔ صدر میں دوبارہ فٹ پاتھیں بلاک نہ ہوں اسے یقینی بنانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی بنائی جا رہی ہے۔

گذشتہ برس کراچی میں بوہری جماعت کا مہینے بھر کا عالمی کنونشن صدر کے علاقے میں منعقد ہوا تو تجاوزات ایسے صاف ہوئیں اور صفائی ستھرائی کا نظام یک بیک اتنا اعلی ہو گیا اور ٹریفک میں اتنا نظم و ضبط پیدا ہوگیا کہ آنکھوں پر سے اعتبار اٹھ گیا کہ یہ وہی صدر ہے جہاں کوئی بھی شریف آدمی کسی بھی فٹ پاتھ پر چل سکتا ہے۔ مگر جیسے ہی بوہری جماعت کا کنونشن ختم ہوا گزشتہ روز پھر وہی پرانا جانا پہچانا غلیظ، بے ہنگم ناہنجار صدر نمودار ہوگیا۔ تین لین کی سڑک پر دو لین حسبِ معمول پارکنگ مافیا نے ہتھیا لیں اور ایک لین عام ٹریفک کے لیے کھول دی گئی، کچرے کے ڈھیر پھر سے پنپنے لگے اور فٹ پاتھیں ٹھیلوں کے بیچ دوبارہ غائب ہو گئیں۔

اس تجربے کی کامیابی اور پھر ناکامی سے اندازہ ہوا کہ اگر ریاستی ادارے چاہیں تو ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے، نہ چاہیں تو ممکن بھی ناممکن ہے۔

آپ خود ہی سوچئے کہ سپریم کورٹ کے ڈنڈے کے بغیر یہ کام کیسے ممکن ہے؟ کون سا ٹھیلے والا اتنا طاقت ور ہے کہ کسی بھی تھانے کی حدود میں بھتہ دیے بغیر اپنی دکان سجا سکے۔ اہلِ اختیار کے لیے کروڑوں روپے کی بالائی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اوپر سے نیچے تک یہی تجاوزات تو ہیں اور پھر یہ زنجیر اوپر جانے کہاں تک چلتی چلی جا رہی ہے۔

خوبصورت بات یہ ہے کہ جو تجاوزات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہی انھیں ڈھاتے بھی ہیں۔ اور کان میں کہتے جاتے ہیں۔ بس ایک آدھ مہینہ صبر کر لو۔ ہم نے تم نے جانا کہاں ہے۔ افسرانِ بالا صاف جگہ کا ایک بار دورہ کر لیں، تصویریں کھنچوا لیں۔ اس کے بعد پھر ریڑھی لگا لینا، دکانجما لینا۔

ستمبر دو ہزار دس میں نافذ ہونے والے سندھ پبلک پراپرٹی ( اینٹی انکروچمنٹ ) ایکٹ کا مقصد سرکاری زمین واگذار کروانا ہے۔ اس قانون کے احاطے میں فلاحی رقبہ، پارک، کھیل کا میدان، فٹ پاتھ، نالیاں، سڑک، بازار، سرکاری عمارات اور غیر قانونی کچی آبادیاں شامل ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت ناجائز قابض کو دس برس تک قید اور جس اراضی پر قبضہ کیا گیا اس کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت حکومتِ سندھ نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ایک ایک خصوصی اینٹی انکروچمنٹ عدالت تشکیل دی۔ اس برس کراچی کی اینٹی انکروچمنٹ عدالت میں دو کیسز آئے جب کہ حیدرآباد اور سکھر کی عدالت میں ایک کیس بھی نہیں آیا۔

گذشتہ آٹھ برس کے دوران تینوں عدالتوں میں ایک سو ستاسی کیسز پیش کیے گئے۔ صرف چھ کیسز میں کوئی فیصلہ ہو سکا باقی سب لٹکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان آٹھ برسوں میں جس قدر زمین خرد برد یا چائنا کٹنگ کی نذر ہوئی اس کے ہوتے اینٹی انکروچمنٹ عدالتوں کے پاس تو سر اٹھانے کی فرصت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اس وقت اگر سب سے ویہلی کوئی عدالت ہے تو یہی اینٹی انکروچمنٹ عدالت ہے۔ جہاں اس برس سزا سنائے جانے کا تناسب زیرو ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ایک ایس ایس پی کی قیادت میں اینٹی انکروچمنٹ فورس بھی قائم ہے۔

البتہ قانون میں ایک کمی یہ ہے کہ سارا بار سرکاری اراضی کو ناجائز کھرونچنے والے کے سر پے ہے۔ سہولت کار یا فیصلہ ساز کے لیے کوئی سزا نہیں۔ غیر قانونی کار پارکنگ اور آٹو مکینکس کی دکان کے سامنے مرمت کی غرض سے کھڑی گاڑیاں بھی انکروچمنٹ کی تعریف سے باہر ہیں۔

ایک بڑا معاملہ سرکاری و نجی زمین، گرین بیلٹس اور فلاحی پلاٹوں پر راتوں رات قبضے کے لیے مسجد و مدرسے کی تعمیر کا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ناجائز زمین پر مساجد کی تعمیر کی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ تاہم فسادِ خلق کے خوف سے انتظامیہ ایسی تعمیرات پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہچکچاتی ہے۔

جو لوگ ان حرکتوں میں ملوث ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے مالک کی رضامندی یا مالک کو زمین کی ادائیگی کے بغیر عبادت گاہ کی تعمیر حرام قرار دی ہے اور ایسی جگہ کی جانے والی عبادت کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ مسجدِ نبویؐ کی زمین حضرت عثمانِ غنی ؓ نے خرید کر عطیہ کی۔

ڈاکٹر حمید اللہ صاحب مرحوم کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عمرؓ ابنِ خطاب کو جب اطلاع ملی کہ کچھ لوگوں نے ایک یہودی کے قطعہِ اراضی پر قبضہ کر کے مسجد کھڑی کر دی ہے تو آپ نے یہ مسجد منہدم کروا کے یہودی کو زمین واپس دلوائی۔ اسی طرح جب جامع مسجد دمشق کی توسیع کے دوران ایک متصل گرجا ڈھا دیا گیا تو مسیحی رہنما اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے سامنے پیش ہوئے۔ خلیفہ نے مسجد اموی کے اس حصے کو ڈھانے کا حکم دیا جو چرچ توڑ کر بنایا گیا تھا۔ تاہم اس دوران مسیحی رہنماؤں نے اس قطعہِ زمین کی قیمت لینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ یوں معاملہ خوش اسلوبی سے رفع دفع ہو گیا۔

ضرورت ہے کہ جید علماِ کرام قبضے کی زمین پر مسجد کی تعمیر کی شرعی حیثیت کے بارے میں عوام الناس کو وقتاً فوقتاً ویسے ہی آگاہ کریں جیسے دیگر منکرات کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ ریاست شہریوں کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کرے تاکہ جس کسی علاقے میں سرکاری و نجی اراضی کو کاروبار و رہائش و عبادت کے نام پر ہتھیانے کی کارروائی ہو۔ کوئی نہ کوئی شہری متعلقہ حکام کو فوری طور پر مطلع کر سکے۔ نئے پاکستان میں تجاوزات کی گنجائش نہیں بنتی۔ تجاوزات ڈھانے کا کام پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ لیکن کیا آخری بار ہو رہا ہے؟
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).