شہریار شہزادہ اور یونیورسٹی کی وہ الہڑ حسینہ


ان سے پہلے پہل نیٹ پر ملاقات ہوئی تو وہ سکھوں سے محو گفتگو تھے۔ بلکہ کچھ یاد پڑتا ہے کہ پہلے پہل وہ بھی سکھ نظر آئے تھے۔ پھر ذرا غور کیا تو اپنے پہلے خیال کو کچھ غلط سا پایا۔ سکھ سر کے علاوہ داڑھی کے بالوں کو بھی نہیں کاٹتے۔ ان کی داڑھی کٹی ہوئی تھی۔ شبہ ہوا کہ شاید نرنکاری ہوں۔ صرف سر کو کھلا چھوڑ کر داڑھی منڈانے پر یقین رکھتے ہوں۔ لیکن جب ملے تو پھر یہ خیال بھی غلط لگا۔ یہ سوچ بھی درست نہ تھی کہ فقط وزن پورا کرنے کے لیے انہوں نے بال بڑھا لیے ہیں۔ سوچا کہ شاید مصنف ہونے کی وجہ سے لانبے بال اس لیے رکھتے ہیں کہ فکر سخن کرتے ہوئے ان میں ہاتھ پھیرتے جائیں اور سوچتے جائیں۔ مزید ملاقات ہوئی، کچھ کھلے تو پھر یہ گمان ہوا کہ شاید غم جاناں ہی ان لمبے سنہرے بالوں کا کارن ہے۔

بے مثال لیکھک ہیں۔ ڈرامے لکھتے ہیں تو وہ کمال کے ہوتے ہیں اور فسانے لکھتے ہیں تو قلم توڑ دیتے ہیں۔ پورے ملک میں گھومتے ہیں۔ کبھی کہیں ہوتے ہیں کبھی کہیں۔ ایک بار دیر تک نشست جمی رہی۔ جب تک بے تکلفی بھی ہو چکی تھی۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے اس طرح کو بہ کو پھرنے کا۔ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر سر جھٹک کر بال پرے کیے تو ان کی آنکھوں میں ایک عجب غم نظر آیا۔ بولے تو آواز بھرائی ہوئی تھی۔ کہنے لگے کہ ایک شہر کے دکاندار ادھار دینا بند کر دیتے ہیں تو پھر آدمی دوسرے میں نہ جائے تو کیا کرے۔ گلے پڑ جاتے ہیں یہ فن کے دشمن۔ گھر سے باہر نکلنا تو دشوار ہوتا ہی ہے، گھر کے اندر بھی سکون سے نہیں رہنے دیتے۔ پاوندوں کے خیموں میں گھاس اگنے لگے تو پھر کوچ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

پھر کہنے لگے کہ میں نے تم کو چائے کی دعوت ہی نہیں دی۔ کل رات سے دودھ اور پتی دونوں ختم ہیں۔ اندھیرا زیادہ ہونے سے پہلے باہر جانے والے حالات نہیں ہیں۔ اس لیے پانی کے علاوہ گھر میں پینے کے لیے کچھ نہیں مل سکتا۔ یا پھر یہ کل رات کی بچی ہوئی چائے کا کپ پڑا ہے جو خدا کسی دشمن کو بھی نہ پلائے کہ اس میں تین سگریٹیں گل کر چکا ہوں۔

ان کو دلگداز موڈ میں دیکھا تو پوچھ ہی لیا کہ اتنے لانبے بال کیوں رکھتے ہیں۔ وہ کچھ دیر لمبے لمبے کش لیتے رہے اور نیلے نیلے مرغولوں کے اندر کچھ ڈھونڈتے رہے۔ پھر بولے ”اس نے کہا تھا کہ کاش میرے بھی تمہاری طرح کے لمبے لمبے سنہرے بال ہوتے۔ ان کے لیے میں کچھ بھی قربان کر سکتی ہوں“۔ میں نے استفہامیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو وہ نظر ملائے بغیر سامنے پڑے ہوئے اکلوتے آدھے خالی کپ میں سگریٹ کی راکھ جھاڑنے لگے۔ کچھ دیر ہم اسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔ پھر وہ رکے بغیر بولنے لگے۔ پتہ نہیں کب سے ان کے دل میں محبوس تھا یہ غم جو اب سیل رواں بن گیا۔

وہ مجھے یونیورسٹی میں ملی تھی۔ دالانوں میں وہ خراماں خراماں چل رہی ہوتی تھی اور میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوا پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ لیکن کبھی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ہم کلاس میں بیٹھے ہوتے تھے۔ پوری توجہ اپنے استاد کے لیکچر پر ہوتی تھی جو شیکسپئیر سے لے کر آغا حشر کاشمیری تک کے فن پر بات کر رہے ہوتے تھے اور بتاتے تھے کہ کس کس طرح آغا صاحب نے ان مضامین کو کمال خوبی سے باندھا ہے جن پر شیکسپئیر جیسے کاملین فن مار کھا گئے ہیں۔

ان کا موازنہ رستم و سہراب اور ہیملٹ تو ابھی تک کانوں میں ایسے گونجتا ہے جیسے وہ وقت ابھی گزرا نہیں ہے، بلکہ سدا گزرتا رہے گا۔ بہرحال، اب بھی ان لیکچروں کی یادیں اس طرح فسوں طاری کر دیتی ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس زمانے میں کیا حالت ہوتی ہوگی جب پروفیسر کامل شتم الفاظ کا دریا بہا دیتے تھے اور ہم مبہوت بیٹھے سنا کرتے تھے۔ لکھنا تک بھول جاتے تھے۔ اسی سبب کبھی ان کے مضمون میں پاس نہ ہو پائے اور یونیورسٹی کو کسی کاغذی پروانے کے بغیر لیکن کامل علم کے ساتھ الوداع کہا۔

لیکن ایسا نہیں تھا کہ اس طلسم کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ اس فسوں کو صرف ایک چیز توڑ ڈالتی تھی۔ جب وہ الہڑ کھڑکی کے باہر سے گزرتی نظر آجاتی تھی تو پھر کچھ اور باقی نہیں رہتا تھا۔ کچھ اور سنائی نہیں دیتا تھا۔ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی لہک لہک کر چلتی تو اردو کا پورا دیوان عشق اس کی ایک اٹھان کو بیان کرنے سے قاصر ہو جاتا تھا۔ اک ادا سے وہ اپنے چہرے سے بالوں کی لٹ کو ہٹاتی تھی اور ایک نگاہ غلط انداز ڈال کر آگے نکل جاتی تھی۔ اور میں اسے دیکھنے میں محو ہو جاتا تھا۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ باقی طلبا چلے جاتے تھے اور میں اسی محویت میں بیٹھا رہتا تھا۔ وہ بھی چلی جاتی تھی لیکن مجھے پھر بھی دکھائی دیتی رہتی تھی۔ پھر شام ڈھلے احساس ہوتا تھا کہ ساری یونیورسٹی خالی ہوگئی ہے اور چوکیدار مجھے کمرے میں بند کر کے جا چکا ہے۔

تم تو جانتے ہی ہو وہ عمر کیسی ہوتی ہے اور جھجک کیسی ہوتی ہے۔ بات کرنے کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ صم بکم اسے دیکھتا رہتا تھا اور پیچھے چلتا رہتا تھا۔ وہ ہمارا یونیورسٹی میں آخری سمیسٹر تھا جب میں نے حوصلہ جمع کیا۔ اس کے بیگ سے ایک کاغذ گرا۔ میں نے موقع غنیمت جانا۔ کاغذ اٹھایا اور اس کے پیچھے لپکا۔ ”مس، آپ کا یہ ضروری کاغذ گر گیا ہے“۔ وہ پلٹی اور دنیا جیسے تھم گئی۔ وقت جامد ہوگیا۔ اور دل رک گیا۔ بولی ”دے دے، دیکھ کیا رہا ہے۔ مہارے انچارج نے دیکھ لیا تو بہت بزتی خراب کرے گا کہ کوڑا بھی ٹھیک سے نہیں اٹھاتی“۔ یہ کہا اور میرے سے کاغذ جھپٹ کر اپنے بیگ میں ڈالا اور جھاڑو لہراتی چل دی۔ میں اپنے ہاتھ کو دیکھتا رہ گیا جہاں اس کا لمس ایک خفیف سے لمحے تک رہا تھا۔ لیکن وہ لمحہ ساری زندگی کے لیے ذہن پر حاوی ہوگیا۔

پھر گزرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنے لگے۔ وہ میرے کمرہ جماعت کے آگے دیر تک کھڑی رہنے لگی۔ اور یونیورسٹی بند ہونے کے بعد ہم اکٹھے سٹاپ تک چلتے۔ میں ایک ہاتھ میں اس کا کوڑے کا تھیلا اور جھاڑو تھامے ہوتا اور دوسرے ہاتھ میں اپنی کتابیں، اور اس کے ہاتھوں نے میرا دل تھاما ہوتا۔

آخری بار جب ہم ملے تو اس نے میرے بالوں کو چھوا اور کہنے لگی کہ اس نے کہا تھا کہ کاش میرے بھی تہماری طرح کے لمبے لمبے سنہرے بال ہوتے۔ ان کے لیے میں کچھ بھی قربان کر سکتی ہوں۔ لیکن اماں ہر ہفتے کٹوا دیتی ہے کہ جوؤں سے کسی طرح تو پیچھا چھوٹے۔ پھر وہ کچھ دیر چپ رہی اور بولی ”اب ہم نہیں مل پائیں گے۔ میرا آدمی اب مجھے اور ہمارے چھ بچوں کو لے کر پنڈ واپس جا رہا ہے۔ “ میں صم بکم اسے دیکھتا رہا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جدائی کی گھڑی اتنی جلد آجائے گی۔ وہ چلی گئی اور میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ دیکھتا ہی رہا۔

پھر میں بھی اس یونیورسٹی سے چلا گیا۔ جب وہ ہی وہاں نہیں رہی تھی تو میرے لیے وہاں کیا رکھا تھا۔ اب کبھی کسی شہر میں جاتا ہوں اور کبھی کسی شہر میں۔ کہیں تو وہ دوبارہ نظر آئے گی۔ سنجوگ کی کوئی ایک گھڑی تو ہوگی میرے نصیب میں۔ وہ مسکرائے لیکن کیا کبھی ایسی غمزدہ مسکراہٹ میں نے کبھی کہیں اور دیکھی تھی۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا ”کبھی تو سنجوگ کی گھڑی آئے گی۔ کبھی تو آئے گی“، اور اپنے سامنے رکھا ہوا اکلوتا چائے کا کپ اٹھا کر چسکیاں لے لے کے پینے لگے۔
15 مارچ 2013

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar