صنف نازک پر تعلیم کے دروازے بند ہونے لگے


 مغیث علی۔۔۔\"Mughees-Ali\"

ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو لازمی تعلیم مفت فراہم کرنے کی پابند ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل پچیس اے ریاست کے شہریوں کو لازمی اور مفت تعلیم فراہم کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ حکومتی کوششوں کے باوجود خواتین کی بڑی تعداد سکولوں میں اپنی حاضری برقرار نہیں رکھ پاتیں اور مجبوراً انہیں تعلیم کو چھوڑنا پڑتا ہے اس کی بنیادی وجہ سماجی، اقتصادی اور روایتی رویے ہیں۔ لڑکیاں تقریباً ملک کی آدھی آبادی ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تعلیم کے فروغ کے EFA (اہداف ایجوکیشن فار آل) کو پورا کرنے میں ناکام رہا ۔ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ سب بڑا المیہ یہ ہے کہ SMC فنڈ کے نان سیلری بجٹ(NSB) جو ہیڈ ٹیچر(HT) سکولوں میں اندراج کی ترغیب دیتی ہیں کہیں نظر نہیں آرہا اس فنڈز کے ذریعے ضرورت مند طلبا کو اسٹیشنری، ماہانہ یا سہ ماہائی وظیفہ دینا ہوتا ہے۔ اوراسی فنڈ کے ذریعے فیس کی چھوٹ یا پھر مفت درسی کتب بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔ لیکن بظاہر یہ فنڈ خرد برد کیا جا رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی انکوائری کرنے والا۔ معاشرے کے غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اسکول جانے سے مکمل طور پر محروم رہتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی یہی حال ہے والدین کی ناخواندگی اس میں اہم امر ہے، اگرچہ پڑھے لکھے افراد میں یہ تناسب کم ہے۔ غریب خاندان کے لوگ زمینداروں کے پاس کام کرتے ہیں انہی سے ہی قرض لیا ہوتا ہے، اسی بناء پر وہ اپنی بچیوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں اور زمینداروں کے گھر پر ہی بچیوں کو کام کاج کے لئے لے جاتے ہیں تاکہ قرض اتار سکیں۔ یقیناً یہ بات قابل افسوس اور غور طلب ہے۔

بچیوں کو نرسری کلاس میں داخل تو کرا دیا جاتا ہے لیکن مڈل اور ایلیمنٹری سکول تک جا کہ یہ سلسلہ بہت کم ہوجاتا ہے جس سے خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے مکمل طور پر محروم رہتی ہیں اورخاندان مزید غربت میں دھنس جاتا ہے۔ دلی طور پر خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ، شوق اور امنگ بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اسکولوں کا تدریسی معیار، ڈھانچہ اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، اسکولوں کی بد انتظامی، حفاظتی اقدامات پر تحفظات، روایتی عدم تحفظ اور دباؤ یہ سب لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث صنف نازک تعلیم سے دور ہو کر گھر میں بیٹھ جاتی ہیں اس کے بعد کھیتوں میں کام کرتی ہیں یا پھر اینٹوں کی بھٹوں پر۔ اسی طرح اگر دوسراپہلو دیکھا جائے تو اسکول میں بچیوں کے آنے کے بعد ان کو ترک کرنے کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ سکولوں کا معیار اچھا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ رفع حاجت کے لئے لڑکیوں کو کھیتوں یا کھلے میدانوں میں جانا پڑتا ہے۔

چھوٹی عمر میں تو یہ سب چل جاتا ہے لیکن جیسے ہی لڑکی بڑی ہوتی ہے تو وہ یہ سب کچھ کرنا اچھا نہیں سمجھتی جس کے باعث اسے گھر میں بیٹھنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ سکولوں میں اساتذہ کا پڑھانے اور سکھانے کا معیار بھی اہمیت کا حامل ہوتاہے اسکولوں میں یہ دونوں طریقے اچھے نہ ہونے کے باعث لڑکیاں سکول کو خیر بعد کہہ دیتی ہیں۔ گھر سے سکول کا فاصلہ بھی لڑکیاں کی تعلیم پر پابندی لگاتا ہے۔ ماں باپ لڑکی کو اکیلا سکول بھیجنے سے ڈرتے ہیں غربت کے باعث روزانہ دور دراز جگہ پر چھوڑ کر آنا اور پھر واپس لے کر آنا مشکل ہوتا ہے۔ غریب خاندان کو غربت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ روزانہ لڑکی کو چھوڑ کر آئیں اور پھر واپس لے کر آئیں۔

یہ حقیقت ہے کہ والدین لڑکیوں کو اسکول بھیجنے میں مزاحمت نہیں کرتے والدین کے درمیان آگاہی کا درجہ ماضی کے مقابلے میں بڑھ چکا ہے چند بزرگ اور عمر رسیدہ افراد لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف ہوتے ہیں لیکن والد پھر بھی اپنی لڑکی کو سکول بھیجنا چاہتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ تمام مسائل اور رکاوٹیں دور ہو جائیں۔ لڑکیاں بھی سکول جانا چاہتی ہیں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ محنتی، ذہین اور ذمہ دار ہوتی ہیں انہیں سکول اور گھر دونوں میں ہی پڑھنے کا زیادہ شوق ہوتا ہے لڑکیوں کو سکولوں میں اگر کوئی ہنر سکھانے کیساتھ ساتھ ٹریننگ یا ہو م اکنامکس مضمون پڑھایا جا ئے تاکہ ان کے مالی و اقتصادی مسائل ختم ہو سکتے ہیں ۔ لڑکیاں جب اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکیں گی اور روزگار حاصل کر سکیں گی تو وہ اپنی تعلیم بھی باآسانی طریقے سے حاصل پائیں گی۔

ریسرچ کے مطابق خواتین کی راہ میں حائل رکاوٹیں اس وقت ختم ہو سکتی ہیں جب حکومت معاشی مسائل حل کرنے کیساتھ معیار تعلیم کو بہتر بنائے گی۔ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے مناسب انتظامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی ہونے کی امید کر سکتے ہیں ۔ تمام باتیں صرف بیانات کی حد تک کی جا رہی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کئے گئے۔ جھوٹے وعدے اور جھوٹی قسمیں کھا کر تعلیم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد ناخواندگی کے باعث اپنے خاندان کی کفالت اس طرح نہیں کر پاتی جس طرح کرنی چاہیے۔ تعلیم نہ ہونے کے باعث ان کی کوکھ سے جنم لینا والا بچہ سیاست، دین اور سماجیت سے بالکل نا آشنا ہوتا ہے۔ حکومت اگر معاشی مسائل حل کر دے تو بہت سی لڑکیاں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔ سکولوں میں موجود ہیڈ ٹیچرز کو بھی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانا ہو گی فنڈز کا درست استعمال کیا جائے اور اساتذہ کو ایسی ٹریننگ دی جانی چاہیے جس سے وہ لڑکیوں کوآگے تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کرسکیں۔

محکمہ تعلیم بھی اپنا فرض احسن طریقے سے نبھائے۔ سکولوں کی نگرانی اور مانیٹرنگ مربوط طریقے سے کی جائے۔ ایک بھی سکول ایسا نہیں ہونا چاہیے جہاں حکومتی نمائندے کا دورہ نہ ہوا ہو۔ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے والدین او ر کمیونٹی کوبااختیار بنانے کے لئے محکمہ تعلیم (One Window) کی بنیاد پر مسائل حل کرے تاکہ حکومتی کاموں کی تاخیر کے باعث والدین میں ناامیدی کی فضاء پیدا نہ ہو سکے۔ حکومتی اور محکموں کی ذمہ داریاں ایک جانب سول سوسائٹی بھی خواتین کی راہ میں حائل رکاوٹوں کوختم کرانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے محلے کی سطح پر غریب بچیوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے جائیں سیمینار منعقد کراکے تعلیمی آگاہی دی جائے بچیوں کو با عزت روزگار کے مواقع دیئے جائیں تاکہ آئندہ آنی والی نسلوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت کے متعلق دو رس آگاہی حاصل ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments