’میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں‘


‘حکومت غریبوں کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ نہ ہم اپنے بچوں کی بھوک مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں سکول میں پڑھا سکتے ہیں۔’

کراچی سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں، 30 سالہ رخسانہ کے خاوند بیماری کے باعث کام کرنے سے قاصر ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ غربت اور حکومت کا رویہ ہے۔

ایسا ہی کچھ حلیمہ نے کہا جن کے پانچ بچے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے ایک یا دو سال سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی۔

‘میں چاہتی ہیوں کہ میری بیٹیاں پڑھائی کریں لیکن غربت میرے آڑے آ جاتی ہے۔ میرے شوہر کی کمائی صرف 12000 روپے ماہانہ ہے۔ ہر ماہ کے آخر میں ہم کوڑی کوڑی محتاج ہوتے ہیں۔ ہم کیا کریں؟’

اسی بارے میں مزید پڑھیے

کیا پاکستان میں زیادہ لڑکیاں سکول جا رہی ہیں؟

BBCShe#: سندھ کی لڑکیاں بےخوف ہو کر بات کر رہی ہیں

’پڑھنے لکھنے کا خواب ادھورا رہ گیا‘

غریب ترین بچے، اعلیٰ ترین تعلیم

یہ ہیں کچھ انکشافات جو انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی جانب سے ایک نئی رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں جس میں پاکستان میں بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں کمی پر تحقیق کی گئی ہے۔

‘میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں’ کے عنوان سے جاری کی گئی 111 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سکولوں کی تعداد میں کمی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔

پرائمری سکول جانے والی عمر کی 32 فیصد بچیاں سکولوں سے باہر ہیں جبکہ 21 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔

نویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکولوں میں طالبات کی تعداد صرف 13 فیصد رہ جاتی ہے۔

20 سالہ آصفہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سکول میں داخلہ دس برس کی عمر میں لیا تھا کیونکہ ان کے گھر کے نزدیک کوئی سکول نہیں تھا اور قریب ترین سکول بھی کم از کم 45 منٹ کی دوری پر تھا۔

‘میرے والدین نے کہا کہ اگر تم کو پڑھائی کا شوق ہے تو پھر پیدل جاؤ۔ اور سکول کا راستہ بہت کٹھن اور خطرناک تھا اور اس سے پہلے بھی وہاں پر اغوا ہونے کے واقعات ہو چکے تھے۔ میں اسی وقت سکول جا سکی جب میں اپنے ساتھ چند دوست جمع کر سکی۔’

اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے ایچ آر ڈبلیو نے 209 افراد سے بات کی جن میں سے بڑی تعداد ان بچیوں کی تھی جو سکول جانا چاہتی ہیں لیکن سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔

تحقیق کے مطابق سکول نہ جانے کی مختلف وجوہات سامنے آئی ہیں جیسے سکولوں کی تعداد میں کمی، موجود سکولوں میں سہولیات کا فقدان، مہنگی تعلیم، طلبہ پر تشدد اور بالخصوص بچیوں کے ساتھ جنسی تفریق، امتیازی سلوک اور سکولوں پر حملے وغیرہ۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں عالمی معیار کے مقابلے میں ہمیشہ کم رقم لگائی ہے اور اس کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کی تعداد کافی کم ہے اور وہاں کا معیار تعلیم انتہائی ناقص۔

پرائمری سکولوں کی حد تک تو کچھ سکول موجود ہیں لیکن جیسے جیسے بچیاں اگلی جماعتوں میں جاتی ہیں، ان کے سکولوں کی تعداد میں کمی بڑھتی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہے کیونکہ نہ صرف وہاں سکولوں کی تعداد بہت کم ہے، اور جو ہیں بھی ان میں سے بیشتر صرف لڑکوں کے سکول ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو میں خواتین کے حقوق کی ڈائریکٹر لیزل گیرنٹ ہولٹز کہتی ہیں کہ وہ والدین جو خود ان پڑھ تھے وہ بھی تعلیم کی اہمیت سمجھتے ہیں۔

‘ان پڑھ والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کی بچیاں سکول جائیں کیونکہ وہ ان کے لیے بہتر مستقبل چاہتے ہیں لیکن حکومت نے ان لوگوں کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے پر منحصر ہے، بالخصوص لڑکیوں کو۔’

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ظریفہ کے پانچ بچے ہیں لیکن ان میں سے کوئی سکول نہیں جاتا۔

‘کچھ سکولوں کی فیسیں نہیں بھی ہوتیں تو بھی ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے پر وہ رقم مانگنے کا بہانہ کرتے ہیں۔ کبھی کتابیں، کبھی سٹیشنری، کبھی کچھ اور۔ صرف ایک بستہ پی پانچ سو روپے کا آتا ہے۔ ہر روز کچھ نہ کچھ۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp