پہلی جنگ عظیم: ہندوستانی فوجیوں کی غیر ممعولی کہانیاں


پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستان کے 13 لاکھ فوجیوں نے حصہ لیا جن میں سے 74 ہزار سے زیادہ مارے گئے۔

11 نومبر کو ایک سو سال پہلے 1918 میں جنگ کا خاتمہ ہوا جس کے بارے میں کہا گیا تھا ’ تمام جنگوں کے خاتمے کے لیے جنگ‘۔ لیکن اس جنگ میں شامل ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی اب بھی متعدد ان کہی کہانیاں ہیں۔

ان میں فوجیوں نے اپنے ذاتی تجربے کے بارے میں بتایا اور کس طرح ان ہندوستانی فوجیوں کے غیر ممعولی تجربات رہے۔

تاریخ دان جارج مارٹن جیک ان میں سے بعض کہانیوں کو جمع کیا۔

Arsala Khan

آرسلا خان

پہلی جنگ عظیم میں 1914 سے 1918 میں حصہ لینے والے ہندوستانی فوجیوں کی تعداد آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور کریبئن جزائز سے حصہ لینے والے فوجیوں کی تعداد سے زیادہ تھی۔

آرسلا خان کا تعلق 57ویں وائلڈز رائفلرز سے تھا جو سب سے پہلے جنگ لڑنے گئی۔

آرسلا خان نے جنگ میں رجمنٹ میں انڈین فوجیوں کی سربراہی کرتے ہوئے 22 اکتوبر 1914 کی رات کو بیلجیئم کے محاذ میں برطانوی خندوقوں میں داخل ہوئے۔

آرسلا خان نے 1918 تک فرانس، مصر، جرمن مشرقی افریقہ اور انڈیا میں خدمات سرانجام دیں اور اس کے بعد 1919 کے موسم گرما میں انھوں نے لندن میں منعقدہ انڈین وکٹری پریڈ اپنی رجمنٹ کی نمائندگی کی۔

لندن کی سب سے بڑی جنگی یادگار سے یہ مارچ پاسٹ یا فوجی پریڈ گزری جس میں آرسلا کے علاوہ دیگر ہزاروں انڈین فوجی شامل تھے اور اس موقع پر کئی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

امر سنگھ

امر سنگھ

پہلی جنگ عظیم کے بارے میں مغربی مصنف اب بھی مقبول ہیں لیکن انڈین فوج میں بھی ایک مصنف تھا جس نے جو تحریر کیا وہ بہت ہی ممعولی تھا۔

کیپٹن امر سنگھ نے ممکنہ طور پر دنیا کی طویل ترین ڈائری تحریر کی۔

89 جلدوں پر مبنی یہ تحریر 1980 کی دہائی سے 1940 کی دہائی تک کی ہے۔ اس میں امر سنگھ نے انڈیا سے مغربی محاذ جنگ، عراق کے محاذ اور برطانیہ کے بارے میں اپنے مشاہدات کو بیان کیا۔

امر سنگھ کی جنگ 1917 میں ختم ہوئی اور انڈیا میں ان کی اہلیہ رسل نے ان کے آبائی علاقے راجھستان میں بیٹی رتن کو جنم دیا۔

رتن ان کی چھٹی اولاد تھی لیکن کم عمری میں بیماری سے بچ جانے والا پہلی اولاد تھی جس نے جوڑے کو جنگ کے بعد ایک خاندان کی طرح پر مسرت زندگی گزارنے کی نئی امید دی۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

تصاویر: یہ ایک صدی کا قصہ ہے

بارود کی بو میں سپاہیوں کی حسن پرستی

کستوربا گاندھی

کستوربا گاندھی

کستوربا اپنے خاوند مہاتما گاندھی کے ساتھ لندن میں تھیں جب جنگ عظیم شروع ہو گئی اور دونوں نے ہسپتال میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

کستوربا گاندھی نے 1914 سے 1915 کے عرصے میں برطانیہ کے جنوبی ساحلی علاقے میں واقع انڈین فوج کے ہسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کیا۔ یہ ہسپتال فرانس اور بیلجیئم کے محاذ پر زخمی ہونے والے 16 ہزار کے قریب فوجیوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

ہسپتالوں میں رضاکار دیا رام تھاپر اس بارے میں بتاتے ہیں کہ’ کستوربا گاندھی بلخصوص بہت فکر مند تھیں کہ کوئی بھی انڈین فوجی متاثر یا ذات پات کے بارے میں پوچھے جانے والے حساس سوالات پر شرمندگی محسوس نہ کرے۔

’ کستوربا گاندھی شدید زخمی کٹر مذہبی فوجیوں کی خوراک کے دیکھ بھال خود کرتی تھیں اور اگر ہندو فوجی اعتراض کیا جاتا کہ ان کے برتن غیر مذہب کے لوگ صاف کر رہے ہیں تو وہ خود ان کو صاف کر دیتی ہیں۔

اول نور

اول نور اس تصویر میں درمیان میں ہیں

اول نور

اول نور انڈین فوج کی سب سے مقبول رجمنٹ کورپس آف گائڈ میں 1914 سے 1918 تک رہے۔

انھوں نے بیلجیئم، فرانس اور مشرقی افریقہ میں 1914 سے 1917 تک خدمات سرانجام دیں اور اس دوران تین بار زخمی ہوئے لیکن کا سب سے اعلیٰ کارنامہ خفیہ سروس کے لیے کام کرنا تھا۔

نور ان 16 انڈین فوجیوں میں شامل تھے جنھیں نے برطانوی فوجیوں کے ساتھ 1918 میں سینٹرل ایشیا میں خفیہ مشن پر جانا تھا۔

اس خفیہ ٹیم کو براہ راست لندن سے احکامات ملے تھے کہ وسطیٰ ایشیا سے سویت وسائل جرمنی تک ریل اور کیسپیئن سمندر کے راستے پہنچنے سے روکیں۔

نور نے خفیہ ایجنٹ کے طور پر یاک پر بیٹھ کر ہمالیہ عبور کیا اور اس سے پہلے دیگر افسران کے ساتھ مل کر ان تھک محنت کی تاکہ دشمن کے منصوبوں کو زک پہنچائی جا سکے اور پکڑے جانے سے بھی بچ جائیں۔

میر دست

میر دست

میر دست میر مست کے بڑے بھائی تھے جو کہ بھگوڑے اور جرمن خفیہ ایجنٹ تھے۔ وہ اپنے بھائی کے جانے کے چار بعد فرانس کے لیے 1914 میں روانہ ہوئے اور اس موقع پر انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو دوبارہ دیکھ سکیں گے کہ نہیں اور اس کا زیادہ امکان بھی نہیں تھا کیونکہ وہ مختلف ڈویژن، مختلف جگہوں اور مختلف مغربی محاذوں پر لڑ رہے تھے۔

اپریل 2015 میں میر دست کو بیلجیئم کے علاقے یپریس میں کیمیائی حملے کے دوران اپنی کارکردگی کے اعزاز میں وکٹوریا کراس سے نوازا گیا۔

جرمنی کے کلورین گیس کے حملے کے دوران میر دست نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور بقول ان کے’ اندازاً میں نے گیس میں 8 سے 10 سیکنڈ تک سانس لی تو اس کے نتیجے میں آنکھوں اور ناک سے پانی بہنا شروع ہو گیا لیکن انھوں نے لڑائی جاری رکھی اور رات میں اپنے زخمی برطانوی ساتھیوں کو ریسکیو کیا اور انھیں واپس برطانوی خندقوں میں لائے۔‘

اگست 1915 میں بادشاہ جارج پنجم نے انگلینڈ کے ایک ہسپتال میں خصوصی مہمانوں کے سامنے میر دست کو وکٹوریا کراس سے نوازا۔

دست 1916 کے شروع میں واپس انڈیا آ گئے تاکہ جنگ کے دوران گیس کے نتیجے میں دیگر وجوہات کی بنا پر آنے والے زخم سے صحت یاب ہو سکیں اور جب 1917 میں واپس اپنی رجمنٹ میں گئے تو جنگی ہیرو تھے اور انڈیا میڈیا میں ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

اسی برس انھوں نے برطانوی فوج کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے بھائی کی طرح بھگوڑے ہو گئے اور یہ ایسا تکلیف دہ سچ تھا جس کو برطانیہ نے چھپا دیا۔

میر دست کے بارے میں رائے تھے کہ وہ بے حد وفادار تھے جبکہ ان کے بھائی میر مست غدار تھے کیونکہ انھیں جرمن ملٹری سروس میں خدمات کے عوض ائرن کراس کا اعزاز ملا تھا لیکن یہ صرف مفروضہ تھا بلکہ انھیں ڈپلومیٹک سروس کے بدلے میں آرڈر آف ریڈ ایگل ملا تھا۔

پرتاب سنگھ

پرتاب سنگھ

امیرانہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے افسر پرتاب سنگھ جودھ پور لانسر رجمنٹ میں تھے اور 1914 میں جب جنگ پر گئے تو ان کی عمر 73 برس تھی اور مغربی محاذ پر برطانوی خندقوں میں سب سے عمر رسیدہ فوجی تھے لیکن ان کا دل جوان تھا۔

پرتاب میل ملاپ کے معاملے میں انتہائی سرگرم تھے اور فرانس میں اپنی رجمنٹ سے چھٹی لے لیتے تاکہ مشہور اور بااثر شخصیات کے ساتھ کھانا کھا سکیں۔ انھوں نے جن افراد کے ساتھ کھانا کھایا ان میں اس وقت کے فرانسیسی صدر، فرانسیسی فوج کے کمانڈر انچیف، بیلجیئم کے بادشاہ اور برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد شامل ہیں۔

پرتاب سنگھ کے دو بیٹے سگت اور ہنت بھی اپنے والد کے ساتھ جودھ پور لانسر کے افسران کے طور پر جنگ میں شامل ہو گئے۔ پرتاب اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے گئے جب 1918 میں رجمنٹ مشرق وسطیٰ منتقل ہوئی اور تینوں نے مصر، اردن اور فلسطین میں ایک ساتھ خدمات سرانجام دی۔

پرتاب سنگھ نے فلسطین میں 1918 میں جنگِ مگیدو میں غیر ممعولی بہادری کا مظاہرہ کیا یہ انڈین آرمی کی بڑی جنگی کامیابی تھی اور یہ ترک سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا ایک سبب بھی تھی۔

انھوں نے اعلیٰ اعزاز کے لیے برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کو ایک خط لکھا جس میں بتایا کہ’ میرے خیال میں انڈیا کے شاہی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں میں سے وہ واحد فوجی ہیں کہ ساری جنگ میں فرنٹ محاذ پر ہی ڈٹے رہے۔‘

برطانیہ نے ان کی درخواست پر غور نہیں کیا تھا۔ پرتاب سنگھ نے معاہدۂ ورسائے پر کہا تھا کہ ’سیاسی طور پر یہ ایک غلطی ہے اور مجپے یقین ہے کہ جرمن اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک اپنا بدلہ نہیں لے لیتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp