افسوس کوئی محرمِ راز خزاں نہ تھا


موسمِ خزاں کے آتے ہی درختوں پر لگے پتے جب پیلے زرد پڑنے لگتے ہیں، تو شاید انہیں اپنے ان بدلتے رنگوں کی تبدیلی موسم کی اک ادا محسوس ہوتی ہو۔ جب پہلا پتا ٹوٹتا ہوگا تو باقی یہ گمان کرتے ہوں کہ یہ تو اس کی اپنی کمزوری تھی کہ ٹوٹ گیا ورنہ ایسی تو کوئی بات نہ تھی۔

لیکن پھر دن بدن خزاں رُت کی گرفت ان پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے، اور مضبوط سے مضبوط پتا بھی درختوں کی ٹہنیوں سے اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ پاتا، اور اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔

نیویارک میں فرش میڈوز کے علاقے جہاں میں رہتا ہوں، اس کے پاس کاسینا بیلوارڈ پر ایک چھوٹا سا تین تکونی پارک ہے جو ماحولیاتی کاز کے لیے کام کرنے والے ایک شخص ابی والفسن ( 1949۔ 1971 ) کے نام پر ہے۔ اس پارک کو نیویارک سٹی گورنمنٹ نے والفسن کی فرش میڈوز کرونا پارک اور کوئینز کالج میں انوائرمنٹل پراجیکٹس کے لیے مہیا کی جانے والی خدمات کے اعتراف میں 1986 ء میں ان کے نام سے منسوب کیا تھا۔ پارک میں نصب تختی پر ان کی روا رکھی جانے والی موحولیاتی خدمات اور بعد ازاں ایک جہاز کے حادثے میں ان کی موت کے حوالے سے تفصیلات رقم کی گئی ہیں۔

اکثر اوقات گھر سے نکلتے ہوئے میں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس پارک میں ایستادہ درختوں پر آتی اور جاتی خزاں کا مشاہدہ کیا۔ اور تصاویر بھی بنائیں تو حیرت انگیز طور پر معلوم ہوا کہ کس طرح خزاں کے دلکش زرد اور پیلے رنگوں کا نظارہ دیتے پتے انتہائی قلیل مدت میں ان پیڑوں سے جھڑ کر اپنے انجام سے دوچار اور رزِق خاک ہو گئے۔

یہی قانونِ فطرت اور اصول انسانی زندگی بھی ہے کہ انہی گرنے اور جھڑنے والے پتوں نئے آنے والوں کے لیے جگہ بنانی ہوتی ہے۔ اور اسی طرح انسانی زندگی میں آنے والی بہاروں اور خزاو‍ں کے موسموں اور ان کے تغیر و تبدل کا عمل بھی جاری و ساری رہتا ہے۔

امریکہ میں موسم خزاں یا فال ( Autumn) کا آغاز سرکاری طور ستمبر 22 کو ہو جاتا ہے جو دسمبر 21 تک جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف پروگرام اور ایونٹ ترتیب دیے جاتے ہیں، امریکہ کے اہم تہوار تھینکس گیونگ اور بلیک فرائی ڈے بھی انہی آیام میں آتے ہیں۔ جنھیں منانے کے لیے لوگ پورا سال پلانگ کرتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں خصوصی تعطیلات ہوتی ہیں۔

اس موسم میں امریکہ بھر کے علاوہ خصوصاً نیویارک کے مرکزی سنئٹرل پارک کے موسم خزاں کے رنگوں کے دلکش نظارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پوری دنیا سے سیاح ان ایام کی منظر کشی کے لیے اس پارک کا رخ کرتے ہیں۔ اور انھیں اپنے کیمروں میں محفوظ کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے لٹریچر میں جتنی شاعری اور ادب موسم بہار کے حوالے سے پڑھنے کو ملتا ہے اس سطح کی اہمیت خزاں کو نہیں دی گئی۔ یا پھر اس موسم کو زیادہ تر یاس، انجام، بڑھاپا اور خصوصاً نا امیدی کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ یا پھر عاشق کے موسم ہجر اور سماجی سطح پر پھیلی گھٹا ٹوپ آندھیوں اور تاریک سایوں کے استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ موسم ِبہار کو اکثر زندگی، موسمِ عشق، جدت، رعنائی خیال، تروتازگی اور جوانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اس کیفیت کے اظہار کے لیے حبیب احمد صدیقی کا کیا عمدہ شعر ہے۔
رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ
افسوس کوئی محرمِ راز خزاں نہ تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).