ثبوت تو دینا پڑے گا


دروازہ کھولا تو جیلا یوں تیزی سے اندر آیا جیسے اس کے پیچھے کتے لگے ہوں۔ ”کیا ہوا جیلے! اتنے بد حواس کیوں ہو؟ “

”آپ اپنی فکر کریں صاحب! آپ کے مکان پر قبضہ ہو گیا ہے۔ “ جیلے نے فوراً اطلاع دی۔ ”ہیں؟ کیا کہ رہے ہو، کس نے کیا ہے قبضہ؟ “ میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”وہی جس کے حوالے آپ مکان کی چابیاں کر کے آئے تھے۔ “ جیلا بولا۔

”لیکن پپو ایسا کیوں کرے گا؟ “ میں نے حیرت سے کہا۔ ”یہ تو آپ پپو سے ہی پوچھیں، مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ اس وقت آپ کے مکان میں اس کی چار بھینسیں بندھی ہیں اور وہ گاؤں والوں سے کہتا ہے کہ آپ نے مکان اسے بیچ دیا ہے۔ “

بات کتنی سنگین ہے مجھے اُس وقت اندازہ نہیں تھا۔ گاؤں کا مکان اکثر بند پڑا رہتا تھا۔ جب کبھی میں نے گاؤں جانا ہوتا تھا، میں اپنے پڑوسی پپو کو اطلاع کر دیتا کہ میں آرہا ہوں، وہ مکان کی صفائی وغیرہ کروا دیتا تھا۔ اس واقعے سے چند دن پہلے میں گاؤں گیا تھا تو میں نے پپو سے کہا تھا کہ مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے اور اس مکان کا مجھے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے لہٰذا میں اسے بیچنا چاہتا ہوں ؛ تم کوئی گاہک تلاش کرو۔ گاہک ملا نہیں اور یہ خبر مل گئی۔ جیلا یعنی جمیل بھی میرا گاؤں کا قابلِ اعتماد دوست تھا۔ لیکن وہ میرے مکان سے ذرا فاصلے پر رہتا تھا۔

میں نے اسی وقت جیلے کو ساتھ لیا اور گاؤں پہنچا۔ پپو نے مجھے دیکھتے ہی برا سا منہ بنا لیا۔ میں نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے میرے ہی گھر سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا۔

میں نے دوستوں سے مشورہ کیا۔ دوستوں نے کہا ہم ساتھ چلتے ہیں اسے مکان سے نکال دیتے ہیں۔ میں نے ان کی تجویز کو رد کیا اور ایک وکیل کے مشورے پر عدالت سے رجوع کر لیا۔ وکیل نے یقین دلایا تھا کہ یہ کیس منٹوں میں ختم ہو جا ئے گا۔ پھر کیس کی ابتدا ہوئی۔ کئی پیشیوں کے بعد پپو کا موقف سامنے آیا۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ اس نے مجھ سے مکان بیس لاکھ میں خریدا اور دو گواہوں کی موجودگی میں انیس لاکھ ادا کردیئے اب ایک لاکھ باقی ہے وہ بقیہ رقم ادا کر کے مکان اپنے نام کروانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔ اس کا بیان دروغ گوئی پر مبنی تھا۔

مجھے امید تھی کہ اس کیس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا لیکن جب عدالت کے چکر لگانے پڑے تو پتہ چلا پہلے یہ ثابت کرنا ہے کہ مکان میرا ہے، پھر یہ ثابت کرنا ہے کہ میں نے اسے پپو کے ہاتھ فروخت نہیں کیا، پھر یہ ثابت کرنا ہے کہ پپو جھوٹ بول رہا ہے۔ اور بھی کئی باتیں ثابت کرنے والی تھیں۔ بہر حال صرف سات سال میں سب کچھ ثابت ہو گیا اور میرے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ میں ان سات برسوں میں اپنے وکیل کے گھر کا سارا خرچ اٹھائے ہوئے تھا اس کے باوجود مٹھائی کا ٹوکرا اس کے گھر بھجوایا اور اس سے پوچھا کہ مکان کا قبضہ کب ملے گا۔

یہ سن کر وکیل ہنسے لگا۔ ”جناب ابھی تو انتظار کرنا ہو گا کہ پپو اس فیصلے کو تسلیم کرتا ہے یا اپیل کرتا ہے یا کسی دوسری عدالت سے رجوع کرتا ہے۔ “

پپو نے اگلی عدالت رجوع کر لیا۔ اب میرے وکیل نے کہا کہ ہم عدالت میں ثابت کریں گے کہ مکان ہمارا ہے اور پہلی عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چناں چہ چودہ سال بعد ایک بار پھر میرے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ میں نے پھر وکیل کے گھر مٹھائی بھجوائی اور قبضے کی بابت دریافت کیا وکیل صاحب نے پھر قہقہ لگایا اور بولے، ”جناب اب آپ کو بیلف کے لئے درخواست دینی پڑے گی کہ میرے مکان پر ناجائز قبضہ تھا میرے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے لہٰذا مجھے قبضہ دلوایا جائے۔ ویسے ابھی انتظار کریں، پپو کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کا بھی تو حق ہے

میں نے سوچا کہ مزید سات سال تک مجھے اپنے وکیل کے گھر کا خرچ چلانا ہو گا۔

لیکن کوئی نیکی کام آ گئی اور پپو کے دل میں کراچی جانے کا خیال آ گیا۔ وہ مکان چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ وکیل صاحب مستقل آمدنی کا ذریعہ کھو بیٹھے اور مجھے چودہ سال بعد مکان کا قبضہ مل گیا۔ مگر ایسی حالت میں کہ مرمت سے زیادہ اسے تعمیرِ نو کی ضرورت تھی۔

یہ ہمارے وطن میں انصاف کی فراہمی کی ایک جھلک ہے۔ یہاں اگر کوئی دعویٰ کر دے کہ آپ مر چکے ہیں تو یہ ثابت کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ ہنوز زندہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ثابت کرنے میں آپ کو وقت کتنا لگتا ہے۔ دس سال بیس سال یا پچاس سال۔ ہو سکتا ہے جب یہ بات ثابت ہو آپ اس وقت راہی ملکِ عدم ہو چکے ہوں۔

اس حوالے سے ایک لطیفہ بر محل ہو گا۔ ایک بھینس گھبرائی ہوئی جنگل میں بھاگی جارہی تھی۔ ایک چوہے نے پوچھا: کیا ہُوا بہن؟ کہاں بھاگی جا رہی ہو؟

بھینس بولی۔ ”جنگل میں پولیس ہاتھی پکڑنے آئی ہے۔ “
چوہے نے کہا، ”پر تم کیوں بھاگ رہی ہو؟ تم تو ہاتھی نہیں ہو۔ “

بھینس نے کہا، ”یہ پاکستان ہے میاں! پکڑی گئی تو کم از کم بیس سال تو عدالت میں یہ ثابت کرنے میں لگ جائیں گے کہ میں ہاتھی نہیں بھینس ہوں۔ “
یہ سن کر چوہے کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ”اؤ تیری تو۔ “ اور وہ بھی بھینس کے ساتھ بھاگنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).